قیصر محمود
انسان کو اس دنیا میں خدا کے نائب اور اشرف المخلوقات کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو بے پناہ خوبیوں ، صلاحیتوں اور طاقتوں سے مالا مال فرمایا ہے۔ ہر انسان مختلف حوالوں سے ذمے دار ہے اور اپنے دامن میں بہت سے فرائض اور واجبات کی فہرست رکھتا ہے ۔ حصول علم وہ بنیادی فریضہ ہے جو کسی بھی انسان کے لئے لازم ہے ۔ دینی اُمور اور دنیاوی معاملات سے متعلق ٹھوس ، پختہ اور جامع علم سے بہرہ مند ہو نے سے کسی بھی شخص کی کا مرانیوں کا آغاز ہو جاتا ہے ، جب کہ اہم موضوعات کے حوالے سے لا علمی کا شکار رہنا سخت نقصانات کا پیش خیمہ ہو تا ہے ۔ علم انسان کو بہترین زندگی گذارنے کے لئے ایک مضبوط اور پائیدار بیناد فراہم کر تا ہے ۔ علم کی کوئی حد نہیں ہو تی ، انسان کا جاننا اس کے نہ جاننے سے ہمیشہ کم ہو تا ہے ۔ اگر انسان کا جذبہ صادق ہے تو اسے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر نے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ اگر حصول علم کی لگن سچی ہے تو آدمی راہ میں لگے درختوں اور فضائوں میں اُڑتے پرندوں سے بھی علم حاصل کر سکتا ہے ۔ علم کے لئے شرط مستقل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے ، فاصلہ طے کروانا اور منزل پہ پہنچانا قدرت کا کام ہے ۔
علم انسان کو سمجھدار بناتا ہے لیکن مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ بہت ممکن ہے ایک آدمی کافی علم رکھتا ہو ، لیکن دانش مند نہ ہو ۔ دراصل یہ معاملہ زبان کے استعمال سے تعلق رکھتا ہے ۔ کثرتِ کلام میں مبتلا رہنا، لایعنی گفتگو کر نا اور غیر ضروری تبصروں میں وقت لگانا علم کے بڑے حصے اور اس کے اثرات کو ضائع کر دیتا ہے اور انسان پختہ سمجھ بوجھ کا حامل نہیں بن پا تا ۔ کسی بھی انسان کے رتبے کا اندازہ اس کی کثرت علم سے نہیں ہو تا بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ فتنہ انگیز بازی سے کس طرح اپنا دامن بچاتا ہے ۔ علم حاصل کر نے سے انسان کے لئے ذمے داریوں کی ادائیگی کی راہ کھلتی ہے اور عمل کر نے سے اس کا مقام و مر تبہ بلند ہو تا ہے ۔ حصول علم درحقیقت ایک کل وقتی اور ہمہ جہتی کام ہے ۔ کتاب و قلم کے ساتھ مضبوط تعلق اسے ہر دم متحرک رکھتا ہے ۔ حصولِ علم کی لگا تار کوششوں سے اس کے دل و دماغ علم کے نور سے منور رہتے ہیں ۔و ہ جانتا ہے کہ گناہوں اور لغویات کو چھو ڑ دینے سے علم کی بنیادیں انتہائی مستحکم ہو جا تی ہیں ۔
حصول علم کا عظیم مقصد عمرکی قید سے آزاد ہے۔ جن لوگوں کو علم کی حقیقی لگن ہو تی ہے وہ کبھی بوڑھے نہیں ہو تے بلکہ روح کی تازگی و توانائی انہیں ہمیشہ جوان رکھتی ہے ۔ گو کہ پختہ عمر میں انسان کی دلچسپیاں اور سرگر میاں مختلف طرز کی ہو تی ہیں اور اس کے ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جا تا ہے ۔ لیکن اس کی ذہنی صلاحتیں بچپن اور نوجوانی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جا تی ہے ۔ عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے بزرگ حضرات بہترین دماغ اور صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی یاداشت میں کوئی فرق نہیں آتا ۔ صحت اچھی ہو اور دل و دماغ یکسو ہوں تو انسان مرتے دم تک حصول علم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے ۔ اصل میں ترجیحات کے تعین کی بات ہے ۔ مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ عام زندگی میں سلیقے کے اہم ذرائع ہیں ، لیکن جو لوگ مطالعے میں مہارت اور پختگی رکھتے ہیں وہی مشاہدے اور تجر بے سے بآسانی درست نتائج اخذ کر پا تے ہیں ۔ جو علم صرف اپنی ذات تک محدود رہے، اس کے اثرات دیرپا نہیں ہو تے۔ علم حاصل کر نا اس پر عمل کر نا اور اس کی بھر پور اشاعت کر نا علم کو لا زوال بنا دیتا ہے ۔ علم کا پا نا اگر چہ بہت بڑا عمل ہے لیکن یہ منزل نہیں ہے ، اس سے راستے کی نشاندہی ضرور ہو تی ہے ۔
لکھنے سے لکھنا آتا ہے ، سننے سے بولنا آتا ہے جبکہ ذخیرہ الفاظ کا ملنا کثرت مطالعہ سے مشروط ہے ۔ یقیناً اچھی کتا بوں کا مطالعہ دل کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے ۔ اکثر اوقات خیالات کی جنگ میں کتابیں ہی ہتھیار ثابت ہو تی ہیں ۔ اہل علم اوراہل ذوق کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا کسی بھی طالب علم کی زندگی کو علم کی لو سے جگمگا دیتاہے ۔ عقل کی بات سیکھنے کے لئے سفید بالوں کا انتظار کر نے کے بجائے سفید بالوں کی باتیں غور سے سننی چاہئیں ۔ ایک دانش مند کا قول ہے کہ کسی با عمل عالم کے ساتھ چند لمحوں کا تبادلہ خیال دس سال کے مطالعے سے بہتر ہے ۔ علم کی لذت ،دولت کی فرحت سے کہیں بڑھکر ہے ، دولت سے انسان کی ضروریات پوری ہو تی ہیں جبکہ علم انسان کو دنیا کی ضرورت بنا دیتا ہے ۔ علم کی بدولت ساری انسانیت فیض یاب ہو تی ہے ۔ علم کے بے حد و حساب پھیلے ہو ئے اثرات گواہی دیتے ہیں کہ علم زندگی کی ایک مضبوط بنیاد ہے ۔
علم انبیاء کی میراث ہے یہ کسی کی جاگیر نہیں ، جس پر اللہ کا فضل ہو گا اور جو شخص بھی محنت کرے گا وہ اسے پا لے گا ۔ علم میں استحکا م اور ذہا نت کا عروج جدو جہد سے وابستہ ہے کیو نکہ ذہا نت ایک ایسا انمو ل پو دا ہے جو محنت کے بغیر نہیں پھلتا پھولتا ۔ علم قدرت کا قیمتی ترین انعام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے ۔ انسان جس چیز کو تلاش نہیں کر تا وہ چیز اُسے نہیں مل پا تی ۔ علم کی بیش بہا دولت کا حاصل ہو جا نا ادب اور احترام پر منحصر ہے ۔ سچے طالب علم کے لئے علم سے متعلق ہر ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل بن جا تی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ کاغذ آلہ علم ہے اگر راستے میں پڑا نظر آ جائے تو علم سے محبت کا تقاضا ہے کہ اُسے اُٹھا کر محفوظ مقام پر رکھ دیا جا ئے ۔ اسی طرح یہ قول بھی ہمیں رہنمائی فراہم کر تا ہے کہ کتابوں کو زمین پر نہ گر نے دیا کرو کیونکہ کتابیں انسان کو آسمان تک لے جا تی ہیں ۔ یقینا ًاساتذہ کرام سے محبت رکھنا اور ان کی فرما نبرداری اختیار کر نا حصول علم کی قومی اساس ہے ۔ کتاب و قلم سے نسبت رکھنے والے ہی علمی فضائل کے حق دار بن پا تے ہیں ۔ انسان جس بڑے مقصد سے تعلق رکھتا ہے، اس تعلق کے اثرات اس کی پوری زندگی پر محسوس کئے جا سکتے ہیں ۔ سچا طالب علم کسی بھی موڑ پر علم و ادب اور تعلیم و تدریس سے بے نیاز نہیں ہو تا اور اس کی غیر معمولی لگن ہی اس کی زبردست کا میابی کا اعلان ہو تی ہے ۔
علم حاصل کر نا ایک اعتبار سے صبر آزما کام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حصول علم کا جذبہ دراصل ایک مزاج ہے ۔ علم کا پیار جس شخص کے دل میں موجزن ہو جا ئے وہ سیکھے بنا بے چین رہتا ہے اور اس کی طلب ہی اسے لذ ت فراہم کرتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی صلاحتیں ہمیشہ بڑھتی ہیں اور تر قی کا سفر ہمہ وقت جاری رہتا ہے ۔ جاننے کے لئے کسی ایک ذریعے پر انحصار اور اکتفا کر نا مناسب نہیں ہے ۔ دانا طالب علم تما م دستیاب اسباب و وسائل بروئے کار لاتے ہو ئے تیز رفتاری کے ساتھ قدموں کو بتدریج بڑھا تا ہے اور یہی تسلسل روز افزوں اسے علمی مہارت کا اہل بنا دیتا ہے ۔
رابطہ۔6291697668