Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

علم الاخلاق اور سید علی ہمدانی ؒ تجلیات ادراک

Towseef
Last updated: June 3, 2025 11:09 pm
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

علم الاخلاق (اِتھکس) مذاہب عالم کے ساتھ ساتھ فلسفے کا بھی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ یہ موضوع جہاں خدا کے پیغمبروں نے واضح کیا، وہیں بڑے بڑے فلاسفہ نے بھی اس کی تشریح و توضیح کرنے کی کوشش کی۔ دراصل ’’بھلائی اور برائی کی حقیقت ظاہر کرنے والا علم‘‘ علم الاخلاق کہلاتا ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے،’’جس علم میں انسانی کردار پر اس حیثیت سے بحث کی جائے کہ خیر ہے یا شر، صواب ہے یا خطا، بُرا ہے یا اچھا، اور اس طرح بحث کی جائے کہ یہ تمام احکام خیر و شر اور صواب و خطا کسی مرتب نظام کی شکل میں آجائیں تو اس کو علم الاخلاق کہتے ہیں۔’’ظاہر ہے کہ اس صورت میں علم الاخلاق ایک ایسا نظری نظام فراہم کرتا ہے جس کی میزان میں اچھے اور برے اعمال کی کیفیت کو تولا جاسکتا ہے۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے، کیونکہ کسی بھی عمل کی کیفیت کوئی ٹھوس شئے نہیں ہے، جسے کسی نظر آنے والی ترازو میں تولا جاسکے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اعمال کے نتائج کو سامنے رکھ کر کسی عمل کے اچھا یا برا ہونے کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے علماء کا خیال ہے،’’جو علم ایسے اصول بتاتا ہو، جن سے انسانی کردار کے صحیح مقاصد کی حقیقی قدر و قیمت کا تعین ہوسکے، اسے علم الاخلاق کہتے ہیں۔‘‘

اب جہاں تک انسانی اعمال کے صحیح مقاصد کا تعلق ہے، تو فلاسفہ کا کہنا ہے کہ ’’انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد حصول سعادت ہے۔‘‘ یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ سعادت سے فلاسفہ کی مراد مجرد ’’وجود لذت اور فقدان الم ہے۔‘‘ ارسطو کا خیال ہے کہ ’’انسان اپنے اعمال کے ذریعے جس مقصد عظمیٰ کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ سعادت ہے۔‘‘

تاہم اسلام سعادت کو صلاح اور فلاح کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس ضمن میں جہاں قرآن ’’فردوس کے حصول کو مؤمنین کے لئے اصل فلاح قرار دیتا ہے۔‘‘ (المؤمنون۔ ۱-۱۱)، وہیں ’’جنت کے حصول کو ابدی سعادت قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (ھود، ۱۰۸) اس ابدی سعادت کے حصول کے لئے تجویز کیے گئے اعمال ہی دراصل اخلاق کریمانہ یا حسن اخلاق کی مختلف جہات ہیں۔
اس طرح ’’انسان کے رجحانات میں سے کسی رجحان کا اپنے استمرار و تسلسل کے باعث غالب آجانا خُلق کہلاتا ہے اور اگر یہی رجحان بہتر اور اچھا ہے تو اس کا نام خُلق حسن ہے۔‘‘ صاف ظاہر ہے کہ جس طرح انسانی جسم کی متوازن ساخت (خَلق) کے لئے ’’احسن التقویم‘‘ (التین، ۵) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے، اسی طرح جب انسان کے اعمال اور کردار میں توازن، اقتصاد اور اعتدال پیدا ہوتا ہے، تو ایسے اعمال سے متصف انسان حسن‌ اخلاق کا مالک قرار دیا جاتا ہے۔ نبی کریمؐ کی ایک خوبصورت دعا سے خَلق اور خُلق کے درمیان یہ فرق واضح ہوتا ہے۔ آپؐ نے رب تعالیٰ سے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! جس طرح تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے، اسی طرح مجھے اخلاق حسنہ سے بھی نواز دے۔‘‘

اخلاق حسنہ کی اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میر سید علی ہمدانی ؒ نے دعوت و عظیمت کے حاملین کی طرح، بحیثیت ایک عالم، مفکر، داعی اور صوفی، اخلاق کی تفہیم اور ترویج کو اپنی دعوتی مہم کا ایک اہم حصہ قرار دیا۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ذخیرہ الملوک ‘‘کے تیسرے باب میں آپ نے اخلاق کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ آپ نے اخلاق حسنہ کی عظمت کو قرآنی آیات اور ان پر نبی کریمؐ کی تشریحات، آپؐکی احادیث مبارکہ، خلفاء راشدین کے واقعات اور صحابہ کی تصریحات سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔‌

سورہ الاعراف کی آیت ۱۹۹:’’درگزر کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے الگ رہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے اخلاق کی بنیادی تعلیم کو نبی کریم ؐ کی اس آیت پر تبصرے سے واضح کیا ہے۔ آپؐ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’بے رحمی کے ساتھ جو شخص تم سے الگ ہوجائے، تم شفقت سے کام لیتے ہوئے پھر اس کے ساتھ (اپنے آپ کو) جوڑ لو اور جو شخص تجھے اپنی نیکی سے محروم کرے، جتنی تمہاری طاقت ہو اتنا اس پر ایثار کرو اور جو شخص تم پر ظلم کرے، تم محبت اور وفا کے ساتھ اس سے پیش آؤ۔‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بندہ اسی صورت میں اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرسکتا ہے جب وہ اصول پسند ہو اور اصول پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ’’اینٹ کا جواب پتھر سے‘‘(ٹٹ فار ٹیٹ) دینے کا قائل نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاق عالیہ سے عاری انسان کو نیکی کی طاقت سے زیر کرنا چاہئے۔ اسی صورت میں وہ ’’برائی کو بھلائی سے دور کرو‘‘ (فصلت، ۳۴) کے قرآنی اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد سید ہمدانی ؒ اس حدیث نبوی کو پیش کرتے ہیں جس میں ’’حسن خُلق اور سخاوت کو بندوں کی میزان میں رکھنے‘‘ کی بات کی گئی ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ حسن اخلاق کوئی مجرد شئے نہیں جو خلا میں پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسن اخلاق کا حامل انسان ہی ہوتا ہے۔ اب اگر انسان صاحب ایمان ہو تو حسن اخلاق سے اس کا وجود اس شجر کی صورت اختیار کرتا ہے جو سایہ بھی دیتا ہے اور ثمر بار بھی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کفر کے ساتھ بد خلقی جمع ہو تو کافر اس درخت کی شکل اختیار کرتا ہے جو بے پھل ہونے کے ساتھ ساتھ کانٹوں سے پر ہوتا ہے اور یہ کوئی سایہ بھی نہیں دیتا۔ یعنی اگر خوش اخلاق مؤمن شجر طیبہ ہوتا ہے تو بد اخلاق کافر شجر خبیثہ کی مانند ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو جس میں ایمان اور کفر کی بڑھتی اور گھٹتی حالت کا پتہ چلتا ہے، اسی حدیث میں آگے اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’جب حضرت حق، جل و علا نے ایمان کو پیدا کیا، (تو) ایمان نے عرض کیا: یا اللّٰہ! مجھے طاقتور بنا دیجئے۔ اللّٰہ تعالی جلت قدرتہٗ نے ایمان کو حسن خُلق اور سخاوت سے طاقتور بنا دیا اور جب کفر کو پیدا کیا، (تو) کفر نے کہا: خداوند! مجھے طاقتور بنا دیجئے۔ خدائے عزوجل نے کفر کو بخیلی اور بد خلقی سے طاقتور بنا دیا۔‘‘

سید ہمدانی ؒ خَلق اور خُلق کے فرق کو کچھ اس طرح واضح کرتے ہیں: ’’صورت کو خَلق کہتے ہیں اور سیرت کو خُلق کہتے ہیں اور ان دو حقیقتوں میں سے ہر ایک میں ایک حسن اور ایک قبح ہے۔ جس طرح صورت کا حسن مکمل نہیں ہوتا سوائے تمام ظاہری اعضاء میں تناسب کے، یعنی آنکھ اور ابرو، رخسار اور منہ اور ہاتھ اور پاؤں میں، اسی طرح سے حسن سیرت میں، جسے خُلق کہتے ہیں، کمال پیدا نہیں ہوتا سوائے قابل تعریف صفات میں اعتدال کے، یعنی علم و حکمت، تقویٰ اور سخاوت، شجاعت اور بردباری، تواضع اور راستی اور پاکدامنی اور انصاف میں۔‘‘ سید علی ہمدانی ؒ اپنے مخاطَب کو خبردار کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑے نیک کام میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی بھی بھلائی برائی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’ان صفتوں میں سے جو کوئی صفت افراط و تفریط کی حد کو پہنچ جائے، وہ سیرت کی خوبصورتی اور حسن کے لئے ایک عیب اور ایک داغ بن جاتا ہے، جیسے سخاوت میں افراط کو اسراف اور فضول خرچی کہتے ہیں، ویسے ہی تفریط کو بخل اور تنگ خرچی کہتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں قابل مذمت ہیں اور حسن سیرت کے لئے نقصان دہ۔‘‘ ظاہر ہے کہ سید ہمدانی ؒ نے اعمال کے اعتدال اور اقتصاد کا لائحہ عمل قرآنی اخلاقیات سے ہی اخذ کیا ہے۔

سیدنا عمر ؓ کے اعلی اخلاق کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے سید ہمدانی‌ ؒ لکھتے ہیں: ’’ایک دن عمرؓ فرما رہے تھے، عورتوں کا مہر بھاری مت بنائیے، کیونکہ اگر ایسا کرنا بزرگی و برتری کا سبب ہوتا تو رسول اللہؐ اس میں بڑھ چڑھ کر ہوتے۔ ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا، کیا آپ نے نہیں سنا کہ خدائے عزوجل نے فرمایا: اگر کسی عورت کو تم نے ہزار مثقال (قنطار، ڈھیر) سونا دیا ہوگا، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تعجب ہے کہ ایک عورت نے درست کہا اور ایک مرد سے غلطی ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ مسند اقتدار پر متمکن ایک عظیم حکمران کا ایک خاتون کی رائے کا احترام کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مذکورہ حکمران اعلی اخلاق کا مالک ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اخلاق ایک کثیر الجہات تصور ہے، جو نیک یا بد کئی صفات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سید ہمدانی ؒ دس صفات کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: ’’کمالی اوصاف کی اصل، جو انسانی اخلاق کی عظمتوں کے اصول ہیں، دس ہیں اور ان ہی دس صفتوں سے تمام پاکیزہ صفات پھوٹ نکلتی ہیں، اور وہ یہ ہیں: علم، حلم، حیا، سخاوت، تقویٰ، شجاعت، عدل، صبر، صدق اور یقین۔‘‘ سید ہمدانی ؒ کے نزدیک ’’جو کوئی ان صفتوں کے کمال کی حقیقتوں سے آراستہ ہوجاتا ہے، اس کی عظیم و شریف ذات اللّٰہ تعالیٰ کی منظور نظر اور اس کی بے انتہا عنایت و پرورش یافتہ ذات بن جاتی ہے۔‘‘

ایسی شخصیت کی نشوونما کے لئے اخلاقیات کا مکمل نصاب قرآن کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ کتاب نہ صرف علم الاخلاق کا تصوراتی ڈھانچہ پیش کرتی ہے، بلکہ اس میں سیدنا آدم ؑسے لیکر رسول اللہ ؐ تک تمام انبیاء کے کریمانہ اخلاق کے نمونے موجود ہیں۔ تاہم ان تمام مکارم اخلاق کی تکمیل نبی کریمؐ نے اپنے اسوہ حسنہ سے فرمائی۔ اس سلسلے میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’ انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق۔ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا۔‘‘ سید ہمدانی ؒ نے اس ضمن میں نبی کریم ؐ کے اخلاق کریمانہ کے بارے میں سیدہ عائشہؓ کا قول نقل کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں،’’حضرت عائشہ ؓ سے خُلق رسول کے بارے میں پوچھا گیا، (آپ نے) فرمایا: کان خلقہ القرآن۔ فرمایا کہ خُلق رسولؑ بس قرآن تھا۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دین کی تکمیل قرآن مقدس پر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح علم الاخلاق کے بنیادی ڈھانچے کی تکمیل بھی اسی کتاب مقدس پر کی گئی ہے۔ اخلاق کا یہی نمونہ رسول اللہؐ نے برت کر دکھایا۔ اسی نمونے پر عمل پیرا ہونا مؤمنین کے لئے نجات کی واحد سبیل ہے۔ سید ہمدانی ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’ان صفتوں کا کمال سوائے حضرت محمد ؐ کی ذات پاک کے اور کسی میں نہیں تھا اور انبیاء و اولیاء و صلحاء و علماء دین کا، ان حقیقتوں کے حصول کے مطابق، محمدیؐ روحانیت کے ساتھ ایک باطنی رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔‘‘
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
(رابطہ۔9858471965)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
مغل شاہراہ پر پیش آئے سڑک حادثے میں پولیس اہلکار جاں بحق آبائی گاؤں میں سرکاری اعزازاور پُر نم آنکھوں کیساتھ سپرد خاک
پیر پنچال
راجوری اور پونچھ میں سیکورٹی فورسز کی بڑی کارروائی وزیر اعظم کے دورہ سے قبل 5درجن مقامات پر تلاشی مہم
پیر پنچال
راجوری کے سرحدی گاؤں میں مشتبہ آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماری کی لہر انتظامیہ حرکت میں ، محکمہ صحت کی تین ٹیموں نے متاثرہ گاؤں کا دورہ کر کے معائنہ کیا
پیر پنچال
عالمی یوم ماحولیات پر گول میں صفائی و شجرکاری مہم کا انعقاد
خطہ چناب

Related

جمعہ ایڈیشنکالم

کتاب وسنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 5, 2025
کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?