سید عامر شریف قادری
یہ تحریر میرے ذاتی درد کا بیان ہی نہیںبلکہ ہمارےایک اجتماعی مسئلے کی نشاندہی ہے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔یہ تحریر اُن تمام کشمیری نوجوانوں کی آواز ہے جو دین ِ اسلام کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں مگر دین کے داعیان اور علمائے کرام کی تنگ نظری، سخت رویوں اور بے تکلفی کی وجہ سے دین سے دور ہو رہے ہیں،جوکہ ایک بڑا المیہ ہے۔ وہ علمائے کرام جن کے سامنے بیٹھنا ہمارے لیے عزت کی بات تھی، جن کے اقوال اور آراء ہمارے دلوں کو متاثر کرتے تھے، آج اُن ہی سے یہ کہنا کہ ان کے بیانات ہمارے دلوں تک نہیں پہنچتے، ایک تلخ حقیقت ہے۔ دین کی تعلیمات کی طرف مائل کرنے میں جو بڑی رکاوٹ درپیش ہے، وہ ہے ایک غیر متوازن رویہ جو نہ صرف ہمیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
معزز علمائے کرام کی کاوشیں بے شک لائقِ تحسین ہیں اور ہمیں دین ِ اسلام سے جوڑنے کا جو فریضہ وہ انجام دے رہے ہیں، ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ لیکن جب علمائے کرام منبر و محراب سے مخاطب ہوتے ہیں، تواُن کا غصہ ،نازیبا رویہ اور تلخ لہجہ ایسا تاثر چھوڑتا ہے جو دعوتِ دین کی روح کے منافی ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کرام کی زبان اور رویے میں وہ حکمت اور تحمل ہونا چاہیے جو دین کے پیغام کو دلوں تک پہنچا سکیں۔علماء کی ذمہ داری صرف علم کی تدریس تک محدود نہیں بلکہ اُن کی باتوں میں ایک دلکش جذبہ، حکمت اور صبر کا عنصر ہونا چاہیے تاکہ اُن کا پیغام عوام تک موثر طور پر پہنچ سکے۔
دین کی دعوت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے معاشرتی اختلافات کو عبور کر کے ایک ایسا پیغام پیش کریں جو امتِ مسلمہ کو متحد اور نوجوان نسل کو دین کی طرف راغب کرے۔ یہ مسئلہ صرف کشمیری نوجوانوں تک محدود نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں پھیل چکا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ فرقہ واریت یا ذاتی پسند و ناپسند نے دین کی سچائی کو دُھندلا کر دیا ہے۔ باہمی لڑائیوں اور بحثوں سے کوئی فائدہ نہیں، دین کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
بے شک آج کے نوجوان دین کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں، لیکن وہ دین کے بارے میں جاری بحث و تکرار، فرقہ وارانہ بیانات اور باہمی اختلافات سے بےزار ہیںاور علمائے کرام کے اس طرزِ عمل کے باعث دین سے دور ہورہے ہیں۔ظاہر ہے کہ علمائے کرام کردارو گفتار محض اُس کی مسلک یاجماعت کے لئے نہیں بلکہ پوری اُمت کے لیے اہم ہوتاہے۔ ایک داعی کا کردار صرف یہ نہیں کہ وہ علم کی بات کرے بلکہ اس کا طرزِ عمل اور بیانیہ بھی ایسا ہونا چاہیے جو ہر انسان کو یکساں طور پر متوجہ کرسکے۔
حق بات تو یہ بھی ہے کہ اب علم کا درواز ہ ہر فرد کے لیے کھلا ہے۔ دینی تعلیمات کی معلومات اب علماء تک ہی محدود نہیں ہیں۔ آج کے نوجوان اُن سے بھی زیادہ پڑھے لکھے ، سمجھدار اور دنیا کے حالات سے آگاہ ہیں۔ اس لیے اُنہیں اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ دین کو اس کی اصل روح میں پیش کر سکیں۔
دین اسلام کا پیغام ہر فرد تک پہنچانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہےاور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان اور عمل میں حکمت، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دعوت کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہی سے بچانا نہیں بلکہ انہیں ایک بہتر، نیک اور متوازن زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔علمائے کرام کے لئے لازم ہےکہ اپنی علمی مساعی میں ہمیں وہ حکمت اور بصیرت دیں،دورِ جدیدمیں جس کی اشد ضرورت ہے۔ دین کی خدمت میں اصل کامیابی اُس کی روح کو سمجھ کر اسے دوسروں تک پہنچانے میں ہے، نہ کہ اس کے اختلافات اور فرسودہ طریقوں میں بندھ کر رہ جانا۔ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہونا چاہیے، اور وہ ہے دین ِ اسلام کی حقیقی روح کو تمام انسانوں تک پہنچانا۔میں علمائے کرام سے یہ بات پوری عقیدت و ادب سے کہتا ہوں کہ آپ کا کردار اُمت کے لیے رہنمائی کی روشنی بن سکتا ہے، اگر آپ اپنی روش کو حکمت، تحمل اور نرم دلی سے مزّین کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اتحاد کی طرف لے جاسکتا ہے۔
[email protected]