انجمن تبلیغ الاسلام جموں و کشمیر کے اہتمام سے سوپور (1)کی سرزمین پر اجتماع ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میدان میں لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈائس پر علمائِ کرام موجود تھے جنہوں نے اپنی تقریروں سے دلوں کو گرما دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب علماء لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتے تھے۔ دلوں کو عشقِ مصطفی ا سے منور کرتے تھے۔ عامۃ المسلمین کو اللہ و رسول ا کی اطاعت کرنے پر اُبھارتے تھے، اتحاد و اتفاق کا درس دیتے تھے اوردلوں کو جوڑنے کا کام انجام دیتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کے دور میں یہ چیزیں عنقا ہیں۔ تبلیغ کے نام پر لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا اور بدگمان کر دیا جاتا ہے۔ توحید کے نام پر انبیائِ علیہم السلام و اولیائِ کرام رحمہم اللہ کی توہین کی جاتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ا کی طرف بلانے کے بجائے ہمارے ’’علماء‘‘ اپنی تنظیموں کی طرف بلاتے ہیں۔ لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے جدا کیا جاتا ہے، ایک ہی محلہ میں دودو تین تین مساجد سے زبردست آواز والے لاوڈ سپیکر سے ’’وعظ و تبلیغ‘‘ کی ایسی صدائیں آتی ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ سنیں تو کس کی سنیں ؟ ۔۔۔۔۔ کہیں پر شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور کہیں پر کفر کے الزامات کی بھر مار ہوتی ہے۔ کہیں کوئی ’’عالمِ دین‘‘ گلا پھاڑ پھاڑ کر مناظرے کا چیلینج دیتا سنائی دیتا ہے، اور کہیں ’’صاد مکاروں (2)‘‘کی ٹولیاں اپنی جماعت کی طرف بلانے میں مشغول نظر آتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں سلیم الفطرت انسان جائے تو جائے کہاں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال بات سوپور کے اجتماع کی ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ علماء کی نصیحت آموز تقریروں سے جلسہ گاہ میں روحانی سکون چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یکایک جلسہ گاہ میں موجود ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور صدر مجلس سے یوں سوال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا محترم! آپ بریلوی ہیں یا دیوبندی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلسہ گاہ میں سناٹا چھا گیا ۔ بہت سارے لوگوں کے لئے یہ سوال غیر متوقع تھا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں سائل کا منشاء کیا تھا!؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل ’صدرِ مجلس‘ نے اپنے والدِ محترم سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امرتسر کے مشہور اُستاذ العلماء حضرت مولانا عبدالکبیرصاحبؒ (شاگردِ رشید علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ) کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور پھر مزید حصولِ علم کے لئے دہلی و دیوبند کا رُخ کیا جہاں علمائِ دیوبند؛ مولانا وجیہہ الدین رامپوری، مولانا مفتی کفایت حسین دہلوی صاحب وغیرہ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن واپسی پر آپ نے دینِ حق کی تبلیغ کا آغاز کیا تو ۔۔۔۔اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عقائدِ اہلسنت و الجماعت کی پیروی کی اور لوگوں کو بھی انہی عقائد کو اپنانے کی دعوت دی۔ چوں کہ کشمیر سے باہر اہلسنت و الجماعت کو ’’بریلوی‘‘ نام سے بھی پکارا جاتا ہے،غالباً اس لئے سائل نے یہ سوال پوچھا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال ہر کوئی جواب سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھا۔ ڈائس پر موجود علمائِ کرام سے لے کر جلسہ گاہ میں عوام تک ہر کوئی ۔۔۔۔۔ صدرِ مجلس ۔۔۔۔۔ کا جواب سننے کے لئے بیتاب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جلسہ گاہ کی خاموشی کو صدرِ مجلس کی بارعب اور متانت سے پُر آواز نے توڑ دیا: ’’میں نہ بریلویوں کے دم پر کام کرتا ہوں اور نہ ہی دیوبندیوں کے دم پر، بلکہ میں اپنے دَم پر کام کرتا ہوں۔‘‘ صدرِ مجلس کایہ جواب سن کر ہر کسی کی گردن آپؒ کے احترام میں جھک گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اس واقعہ کے راوی مولانا سعیدالدین قادری صاحب، صدر انجمن تبلیغ الاسلام شمالی کشمیر ہیں۔ )
یہ تبحرِ علمی، خوددارانہ اور صبر وتحمل کے ساتھ جواب دینے والے صدر مجلس کا اسم گرامی حضرت امیر شریعت علامہ سید محمد قاسم شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ (2000ء1910-ء) ہے۔آپ ایک باعمل عالمِ دین، مردِ قلندر، مصلح اور داعیٔ اِسلام تھے۔آپؒ نے اپنی زندگی کا مقصد علومِ دین کی اشاعت و ترویج کو بنایا تھا۔وادیٔ گلپوش کے ہر قریہ تک اسلام و سنیّت یعنی عشق و محبت کا پیغام لے کر گئے اور بھٹکے ہوئوں کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کی۔ ختم نبوت کے منکروں کو للکارکر اُن کے سارے زور کو توڑ کر رکھ دیا۔ناموسِ صحابہ ث پر آنچ آئی تو آپؒ محافظ بن کر کھڑے ہوئے، تکریمِ اہلِ بیت ث کی بات آئے تو آپؒ پیش پیش رہے، شانِ اولیائِ رضی اللہ عنہم کے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کی آپؒ نے کمر توڑ دی، حنفیت پر انگلی اُٹھانے والوں کا علمی دلائل سے رد کیا۔ ایسا عالمِ دین جس کی مجلس میں بیٹھنا ہر کوئی اپنی خوش بختی سمجھتا تھا،جس کے ساتھ بات کرنا حکمران اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے تھے، جس نے اپنی ذاتی مفاد کے لئے کبھی کسی دُنیا دار کی چوکھٹ پر حاضری نہ دی۔ عفو و درگزر کے پیکر حضرت علامہ ؒ نے اپنے ہم عصر اور اپنے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے والوں سے کبھی شکایت نہ کی، اور نہ ہی کسی اور سے ان کی شکایت کی۔۔۔۔۔اآپؒ جہاں بھی گئے یہ پیغام لے کر گئے کہ ؎
ہر کہ عشق مصطفی ا سامانِ اوست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست
آپ 1960ء سے تادمِ حیات یعنی 40 سال تک انجمن تبلیغ الاسلام کے صدر رہے جس دوران آپؒ نے انجمن کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ انجمن کے پیغام و مشن ’’حنفی مسلک صوفی مشرب‘‘ کو گھر گھر تک پہنچا دیا۔ آپؒ نے مختلف موضوعات پر کم و بیش ۱۱۵ کتابیں تحریر فرمائیں۔علم دین کی نشر و اشاعت کے لئے آپؒ نے پہلے ’’التبلیغ‘‘ نامی ماہنامہ رسالہ جاری فرمایا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ماہنامہ ’’الاعتقاد‘‘ کو شروع کیا (جو آج بھی خدمت دین میں اپنا کردار نبھا رہا ہے)۔………..
رئیس القلم علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک طویل خط، جو ماہنامہ التبلیغ کے ماہِ جون جولائی ۱۹۷۷ء کے شمارہ کی زینت بنا ہے، میں حضرت علامہؒ کی قیادت اور انجمن کے کام کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
’’وادیٔ کشمیر کے لالہ زاروں میں عشق و ایمان اور عقیدت و عرفان کے جو گُل ہائے رنگا رنگ آپ حضرات نے کھِلائے ہیں، اب ان کی خوشبو سے کشورِ ہند کے دوسرے خطے بھی مہک رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسائل کے ذریعہ انجمن تبلیغ الاسلام جموں و کشمیر کی سرگرمیوں کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہت وسیع دائرے میں آپ حضرات نے اس کے تعلیمی اور تبلیغی مشن کو پھیلا دیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ مذہبی اور جماعتی فلاح و بہبود کے مختلف شعبوں کے درمیان دستوری نظم و ضبط کی خبریں پڑھ کر ایک ذہین اور فعال اور سوزِ قیادت کا غائبانہ یقین دل میں پیدا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جموں و کشمیر کے سُنی مسلمانوں کی دینی ارجمندی قابلِ رشک ہے کہ اس دورِ پُر فتن میں انہیں انجمن تبلیغ الاسلام جیسی صالح، حق پرست، ایمان پرور اور سلفِ صالحین کی روایات و افکار کا احترام کرنے والی تنظیم سے منسلک ہونے کا شرف حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انجمن تبلیغ الاسلام جموں و کشمیر کے قائدین سے مؤدبانہ گذارش کروں گاکہ وہ کشمیر کی وادی سے باہر ملک کے دوسرے خطّوں میں بھی اپنی آواز پہنچائیں۔ کروڑوں خوش عقیدہ مسلمانانِ ہند پُر جوش جذبۂ محبت کے ساتھ اُن کی آواز کا خیر مقدم کریں۔‘‘ (بحوالہ’’ سیرۃ البخاریؒ‘‘، صفحہ ۱۰۹۷۔۱۰۹۸)
حضرت علامہ ؒکے عالمانہ اور بیباک اداریے اور مضامین پڑھ کر ایک طرف قاری آپؒ کے تبحرِ علمی کے قائل ہو جاتے اور دوسری طرف اُس وقت کے حالات سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔…. نیچے دیا گئے اقتباس کو بطورِ مثال پیش کیا جاسکتا ہے جو49 سال پہلے لکھا گیا ہے، ایک ایک لفظ سے فکر مندی کا اظہار ہو رہا ہے۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے باوجود یہ الفاظ عصری معنویت رکھتے ہیں جو دورِ حاضر میں ہمارے علمائِ کرام، واعظین عظام اور خانقاہوں کے سجادہ گان کے لئے مشعلِ راہ ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ بزرگان ِدین اور علماء ابرار کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔یوں تو اس خطہ پاک میں حضرت میر رحمتہ اللہ علیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی یادگار طور پر بہت سی خانقاہیں موجود ہیں۔ان میں خانقاہ معلی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ آج جب کہ تبلیغ اسلام کی حد سے زیادہ ضرورت ہے تو قدرتی طور پر ہماری اورباقی مسلمانوں کی نگاہیں اس مرکز عالیہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔اور دیکھنا یہ ہے کہ اگر واقعی اس خانقاہ کے منتظمین اور شاہ ہمدان ؓ کی طرف نسبت رکھنے والے اس مقدس مشن کی حفاظت اور دیکھ بال اسی طرح کررہے ہیں جس کے لئے حضرت امیر ؒ اور آپؒ کے پاکباز ساتھیوں نے بڑی صعوبت وسختی برداشت کی تھی تو زہے سعادت اور تمام مسلمانوں کو ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔مگر افسوس ہے کہ ظاہری دوستی واحترام کے باوجود ہمیں عرض کرنے دیجئے کہ یہ خانقاہ ہماری خواہشات اور دینی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ہم بدقسمتی سے ھمدانیت اور خانقاہ کے انتظام وانصرام سے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اسی خانقاہ سے حضرت میر ؒ کی تعلیمات کے موافق پورے جوش وخروش سے ریاست کے اطراف واکناف میں مختلف تبلیغی وفود بھیجے جائیں۔ہم ہمدانیت سے یہ مفہوم مُترشح کر رہے ہیں کہ ہر سال عُرس مبارک کے موقع پر اس مرکز عالیہ سے حضرت میر ؒ کی تصنیفات وتالیفات مسلمانان عالم کے سامنے پیش کی جائیں۔ہمدانیت کی نسبت اس بات کی غمازی اور عکاسی کرتی ہے۔کہ ہر روز صبح وشام میں پوری عزم وہمت اور جوانمردی سے قرآن حکیم اور سنّت نبویہ ا کا سلسلہ درس وتدریس جاری و ساری ہو۔
ہاں! ہم ہمدانیت کو اسی معنی کا مترادف قرار دیتے ہیں۔اس مرکز خانقاہ سے حضرت میر ؒ کی صوفیانہ تعلیمات کی ریسرچ کرکے علم تصوف کو منکرین ِ تصوف کے لئے کُحل البصر بنایا جائے اور ہماری خانقاہ معلی کے منتظمین کو اب ان چیزوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہو،تو بتائیے وہ ربّ العالمین کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔۔۔؟ غالباً ایسے ہی مخلصین و معتقدین کی طرف آپ ؒ نے اس شعر میں اشارہ فرمایا۔
علیؔ چوں ہمت عالی نداری
ترا کامی بکویش لا جرم نیست ‘‘
(ماہنامہ التبلیغ ماہِ ذی الحجہ ۱۳۸۸ھ/ مارچ 1969ء)
آپؒ کے مزاج میں اعتدال تھا ۔مولانا شوکت حسین کینگ صاحب اپنی تالیف ’’سیرت البخاریؒ‘‘ کے صفحہ نمبر ۲۴۹پررقمطراز ہیں:’’آپؒ اپنا مکتبِ فکر دیوبند یا بریلی یا فرنگی محل قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ صاف صاف فرماتے تھے کہ میرے مکتب فکر کے سر چشمہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلویؒ ہیں—— اور حضرت سیدنا امیرِ کبیر میر سید علی ہمدانیؒ، حضرت جامع الکمالات حضرت شیخ یعقوب صرفیؒ اور حضرت سیدنا بابا دائود خاکیؒ رحمۃ اللہ علیہم کے دکھائے ہوئے راستے پر سختی سے پابند تھے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپؒ کی فکر اس کے سوا کچھ نہیں کہ (التوبۃ: ۱۱۹)۔’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘
آج کے پُر فتن دور میں، جب کفر و الحادکے پرستار اپنے باطل نظریات پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں پر تھونپنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں میں بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشقِ مصطفی ا کو مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بزرگانِ دین اور تعلیمات صوفیہ کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے باطل قوتیں متحد ہو گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۔نااہل لوگ محراب و منبر سے تبلیغ دین کا کام کر رہے ہیں (اِلّا ماشاء اللہ۔) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی تشویش ناک صورتحال میں علامہ بخاریؒ کی فکر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ فکر ہے جو اولیائِ کاملین رحمہم اللہ کی تعلیمات کی ترجمانی کرتی ہے اور اتحاد و اتفاق کا پیغام بھی دیتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس فکر کو عام کرنے کے لئے ہم سب کو کو آگے آنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علامہؒ کے تئیں سب سے بڑا خراجِ عقیدت یہی ہوگا۔ ع
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ
رابطہ :معاون مدیر ماہنامہ’’ الاعتقاد ‘‘سری نگر
9796525191