Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

علامہ انور شاہ کشمیریؒ ۔ علم کا بحر بیکراں شخصیات

Mir Ajaz
Last updated: December 12, 2024 10:41 pm
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

منظور احمد قاسمی

حضرت انورشاہ کشمیریؒ جن کے نامی گرامی کا جزولاینفک علامہ خاتم المحدثین اور امام العصر بن چکا ہے، اپنے نام کی طرح سب سے زیادہ روشن و منور تھے۔ آپ اپنے اخلاص نیت تقویٰ، زہد و استغناء ،للہیت، خشیت، خوفِ خدا، علم وعمل، روشن کردار، بہترین سیرتِ خداداد جمال، عمدہ اخلاق، مہمان نوازی ،فیاضی، سادگی، متانت وقار ،سنجیدگی، خوش خلقی، ظرافت، بردباری، غیرت و خود داری، استقلال و عزیمت ،ایثاروهمدردی، اتباع سنت، عبادت و عبدیت، بےنظیر قوت حافظہ اور ہمالیائی علم کی وجہ سے اہل علم میں سب سے ممتاز تھے۔عالمی سطح پر مشہور نامورشخصیات اس فانی کائنات میں آئی اور بہت آئیں، وہ بھی که جن کی علمی وسعت کے سامنے فضائے کائنات نے بھی اپنے دامن کو تنگ محسوس کیا اور جہاں سمندروں کی گہرائی بھی ہیچ معلوم ہوئی مگر رفعتوں اور بلندیوں کے پیمانے میں افراد کاقد جاننے کے لئےمعلومات ہی نہیں بلکہ استقامت اور علم بالعمل کا اعتبار پیش نظر ہوتا ہے۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس تاریخ ساز شخصیت نے کیسے کیسے رجال کو پیدا کیا، جس سے اسکے کارنامے عیاں ہوتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں تاریخ کے دریچے سے دنیا اس سے آگاه ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے که افراد کائنات کو دنیامحض حسن کی خوبیوں کی وجہ سے کبھی یاد نہیں رکھتی اورا نہیں تاریخ کے یادگار اور روشن صفحات میں صرف ظاہری جمال کی بنیاد پر کسی کوجگہ دی جاتی ہے۔ ہاں! اگر خشتِ اول اجلی سیرت کے ساتھ ساتھ شخصیت خدادادجمال رعنا کامظهر اور علم و عمل کی بنیاد پر خدا کے انوارات کے نزول کامرکز بھی ہو تو سونے پر سہاگہ۔ حدیث میں هے ما بعث اللہ من نبی الا حسن الوجہ و حسن الصوت ۔اللہ تعالی نے ہر نبی کو صورت و ظاہر کی نورانیت و زیبای عطا فرمائی ۔سیرت و باطن کے کمال کے ساتھ حسن و جمال کی دولت سے مالامال حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ بہت سے لوگوں کی ہدایت کے باعث اس جمال کی وجه سے بھی بنے۔
ایک بار ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر فجر کی نماز سے قبل گاڑی کے انتظار میں آپ تشریف فرما تھے کی ریلوے کا ایک ہندو بابو لیمپ ہاتھ میں لے ہوئے آ رہا تھا ۔حضرت شاہ صاحب کا منور چہرہ دیکھ کر سامنے کھڑا ہو گیا اور زاروقطار رونے لگا۔ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوا، کہنے لگا، اس بزرگ کا روشن چہرہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا دین ہے۔آنکھوں میں معصومیت ،چہرے پر معصومیت، لبوں میں معصومیت، از سر تا پا ہمہ تن معصومیت ،حسن کردار کا مجسمہ، عفاف و استغنا ،سنہرا دمکتا ہوا چہرہ، پررونق ونضارت ،شادابی وتروتازگی، جاں بخش و دلآویز نظارہ ،دل نوازی اور دلربائی قصۂ مختصر آپ کے جمال رعنا کے سامنے الفاظ کا دامن تنگ۔
زہد و استغناء : مدرسہ امینیہ جس کا آغاز آپ ہی کے 17 روپے کے چندے سے ہوا تھا، میں آپ ابتداء بحیثیت صدر مدرس رہے بلا تنخواہ پڑھاتے رہے ۔خود فرماتے تھے کہ جب میں نے شروع شروع میں مدرسہ امینیہ میں پڑھانا شروع کیا، شروع شروع میں مدرسے کی کوئی آمدنی نہ تھی پھر دو سال کے بعد اہل دہلی کو توجہ ہوئی اور مدرسے میں روپیہ آنے لگا تو مهتمم صاحب نے میری تنخواہ پانچ روپے کردی، میں وہی پانچ روپے مدرسے میں ماہوار چندہ دے دیتا تھا پھر آئندہ سال میری تنخواہ دس10 روپے ہوگئی پانچ روپے تو میں چند ماہوار مدرسے کو دے دیتا اور پانچ روپے مہتمم صاحب کی ملک کردیتا که آپ مجھے اللہ کے واسطے کھانا دے دیا کریں۔ اخلاص کے ایسے بے تاج بادشاہ اورمخلص مدرسین شائد پوری دنیا میں آج ڈھونڈنے سے نہ ملیں۔
شاه عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ کا بیان ہے ،جن ایام میں حضرت شاہ صاحب مدرسہ امینیہ میں پڑھایا کرتے، آپ برائے نام خوراک صرف ڈیڑھ پیسے کی منگوا کر اُسی پر گذارا کر کے سارے دن درس و تدریس اور علوم و فنون کے مطالعے میں گزارتےتھے۔دنیا نے بہت جبال علم بھی دیکھے اورنامور اسماء بھی، وہ بھی جن کے ولولوں کےپورے ملک میں ڈنکے بجے اور وہ بھی کہ جن کی ظاہری صورتوں کو دیکھ کر حکمرانوں نے ان کے سامنے سرخم تسلیم کیا۔لیکن گزرتے ایام کے ساتھ ان کی شہرت ہوا میں گردوغبار کی طرح تحلیل ہوگی۔ استقامت اور استقلال مزکی اور مصفی مجلی قلوب کچھ صفات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے شخصیت کی شہرتوں میں دوام اور ان کی عزتوں اور رفعتوں میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور پھر ان کے چرچے زمین ہی نہیں بلکہ آسمانوں میں ہونے لگتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ کو اللہ رب العزت نے ان تمام خوبیوں سے بدرجہ اتم نواز رکھا تھا ۔
استاد محترم حضرت مولانا سید انظر شاہؒ نقشہ دوام میں ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ایک طالب علم جن کا نامی گرامی محمد فتح بھرپور شباب میں ،جبکہ ان کا جمال اور رعنائیاں عروج پر تھی، دلی میں طب پڑھنے کے لئے گئے فرماتے ہیں کہ میں محدث نذیر دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوا ،موصوف نے اپنی کبرسنی کا عذر کرتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں ایک نووارد عالم مولانا انور شاہ کشمیری سنہری مسجد میں پڑھاتے ہیں یہاں ان کتابوں کا درس صرف وہی دے سکیں گے ،میں سنہری مسجد میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے میری درخواست پر کچھ وقت عنایت فرمایا ،سبق کے لیے حاضر ہوتا تو آپ نظریں نیچے کئے ہوئے پڑھاتے ۔دو تین سال کے عرصے میں میری یہ تمنا کبھی پوری نہ ہوسکی کہ شاہ صاحب نظر اٹھا کر مجھے دیکھیں، مرض الوفات میں مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب حضرت شاہ صاحب کی نبض دکھانے کے لیے دیوبند لے گئے ۔حکیم صاحب فرماتے هیں که میں اس تصور کے ساتھ حاضر ہوا کہ 40 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، آپ نے مجھے کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا اب پہچاننے کا کیا سوال ۔لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حاضری پر آپ نے میرا نام سکونت اور دلی میں پڑھنے کی تفصیلات سنائی ،میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے مجھے کیسےپہچانا ?۔فرمایا کہ آواز سے آپ کو پہچان لیا ۔آج جبکه سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں ہر جگہ مخلوط تعلیم کا ماحول بنا ہوا ہے اور اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اس بدترین گناہ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا ۔شاہ صاحب کی زندگی کے واقعات ہمارے لئےمشعل راہ ہیں۔ استاذ گرامی حضرت مولانا انظر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک جگہ حضرت علامہ کی نظر کی پاکیزگی کا واقعہ لکھتے ہیں :
فرماتے هیں میں نے اپنی والدہ سے سنا ہے کہ شادی کے بعد حضرت والد کا قیام دارالعلوم کے کمرے میں تھا اور والدہ مولانامحمدطیب مہتمم دارالعلوم دیوبند صاحب کی رہائشی مکان سے ملحق ایک مکان میں جو مہتمم صاحب کی ملکیت تھا ،قیام فرما تھیں۔ مرحوم جب بھی مکان پر تشریف لاتے تو دستور یہ تھا کہ دستک دیتے اور اجازت کے بعد اندر تشریف لاتے اتفاقا ًایک روز مہتمم صاحب کی والدہ ہمارے گھر میں تشریف رکھتی تھی، مرحوم تشریف لائے اور زنان خانہ میں آنے کی اجازت چاہی۔ والدہ محترمہ کو سہو ہوا اور اجنبیہ کی موجودگی کا خیال دل سے نکل گیا، اندر آنے کی اجازت دی۔ مرحوم نے زنان خانے میں قدم رکھا ،اجنبیه پر نظر پڑنے کے ساتھ هی استغفار پڑھتے ہوئے اُلٹے پاؤں باہر لوٹ گئے۔ اس اتفاقی حادثے کی تکلیف جو کچھ آپ کو ہوئی وہ ایک مدت کے لیے والدہ مرحومہ سے ناراضگی کی شکل اختیار کر گئی بلکہ اپنے سبق میں طلباء کے سامنے غمگین لہجے میں فرمایا کہ
بھائی بالغ ہونے کے بعد کل بلاارادہ مولانا طیب صاحب کی والدہ پر نظر پڑ گئی، جس کی تکلیف سوہان ِروح کی طرح محسوس کرتا ہوں۔اب انہیں ڈھونڈ لیتا پھر چراغ رخ زیبا لے کرشاہ عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں، حضرت علامه مرحوم بھرپور جوانی کے زمانے میں جب آپ مدرسہ امینیہ سنہری مسجد میں پڑھاتےتھے مہینوں مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے اور اگر کبھی ضرورت کے لیے باہر نکلنا ہوتا تو چہرے پر رومال اس طرح ڈال لیتے که سوائے راستے کے گردوپیش کے کوئی چیز نظر نہ آتی ،یہ تمام اس لئے تھا کہ کسی غیر محرم عورت پر نظر نہ پڑ جائے۔ ایک طرف وادی کے مخلوط معاشرے کو پیش نظر رکھے اور دوسری طرف شاہ صاحب ؒ کی حالات زندگی کا جائزہ لیجے، سوچیں ہم اسلام کے کون سے مقام احسان پر فائز ہیں۔
شاہ صاحب بحیثیت مردم ساز مربی،استاد بھی ایسا کی جن کی اثرانگیز تربیت طلباء کیلئے وجد آفریں نہیں بلکہ انقلاب آفرین بھی،بالیقین شاہ صاحب کی تربیت ہمہ گیر اثرات کی حامل تھی ۔تھوڑی دیر کے لئے روکے اور ان کی تربیت کے نادر نمونے دیکھئے۔
ایک شاگرد اٹھے اور دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک کا رخ بدل ڈالا اور پھر اس شہر کے ساتھ ساتھ پورے ملک کا نقشہ بھی بھی بدل دیا ۔ ملک کے سب سے بڑے اور مقتدر ادارے کی بنیاد ڈالی، اہل علم سمجھ گئے ہوں گے کہ اس نامی گرامی شخصیت سے شاہ صاحبؒ کے تلمیذ رشید صاحب معارف القران ،مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب ؒ بانی و موسس دارالوم کراچی ہیں جن کے فرزند ارجمند مفتی تقی عثمانی اس وقت عالم اسلام کے صف اول کے علماء میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں۔
شاہ صاحب کے دوسرے نامور شاگرد جنہوں نے اس ملک کی تاریخ بدلنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور جنہوں نے قادیانیت کی کمر میں کفر کی آخری کیل ٹھونسی ،صاحب معارف السنن حضرت علامہ یوسف بنوریؒ ہیں جنکا لہلہاتا پودا جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے نام سے مشہور عالم ہے اور ایک گرامی قدر شاگرد مولانا ادریس صاحب کاندھلویؒ صاحب معارف القرآن و سیرت المصطفی اٹھے اور جامعہ اشرف المدارس لاہور میں بیٹھ کر تاریخ لاہور بدل ڈالی، دارالعلوم دیوبند کو اقصائے عالم میں متعارف کرانے میں جس ہستی نے نمایاں کردار انجام دیا اور جنہوں نے 60 سال تک اس صحن چمن کو علوم اسلامیہ کا باغ بہشت بنانے میں مثالی کردار ادا کیا، وہ بھی آپ ہی کے شاگرد خاص حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ تھے۔ ہاں اور جہاں تک دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام کی بات ہے تو مجھ کو اس حقیقت کے برملا اعتراف میں کوئی شش وپنج نہیں که اس کا قیام آپ ہی کے فرزند استاذ محترم حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحبؒ کی کوششوں کا ثمرہ ہے ۔جنہوں نے اپنا دامن پھیلا پھیلا کر ہندوستان کے چپے چپے سے ایک ایک روپیہ جمع کرکے اس پودے کو آسمان علم کی بلندیوں تک پہنچایا ،رفعتوں سے نوازا اور دس ہزار سے زائد علماء وفضلاء تیار کئے، اپنے فیضان علم سے ایک کائنات کو فیضیاب کیا ۔
ہندوپاک کے نامور ادارے آپ ہی کےتربیت یافتہ شاگردوں نے قائم کئے اور پورے برصغیر میں علوم قرآن وحدیث کی بہار لائی، جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل تومدتوں آپکے نغمہ قال اللہ و قال الرسول سے گونجتا رہا، الغرض شخصیت سازی مردوں سازی کا عنصر حضرت علامہ انورشاہ کشمیریؒ میں موجود تھا۔ شاہ صاحب ؒ کو رخصت ہوئے تقریباً 90 سال ہونے کو ہیں، اب تمام ادارے بھی مل کر ان سا تو کجا ان کے شاگردوں کا سا پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔
شخصیات پر منعقد کئے جانے والے یہ پروگرام اور سیمینار نصف صاحب سیمینار کے تعارف کے لئے نافع اور عوام الناس ان سے استفادے کے محرک بھی ہوتے ہیں بلکہ قاری کے فکری جمود کو توڑتے ہیں ،نئے کھلنے والے پود کی نظر تیز ہوتی ہے ،جوانوں کی ہمت بلند ہوتی ہیں، کچھ کرنے کا جذبہ ان میں پروان چڑھتا ہے ،ارادے مضبوط ہوتے ہیں اور آنے والی نئی نسلوں کو میدان فراہم ہوتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیر میں ان جیسے شخصیات پر عظیم سیمیناروں کا انعقاد کر کے نئی نسلوں کو ان کے کارناموں ان کے علم و عمل سے آگاہ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے اکابر علماء واولیاء سے واقف ہوں اور انہیں اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کواڑ پاور پروجیکٹ میں غرقاب مزدور کی نعش بازیاب
خطہ چناب
ہمیں جموں و کشمیر کی روایات کو آگے بڑھاکر یاترا کو کامیاب بنانا چاہئے لیفٹیننٹ گورنر کا جموں میںبھگوتی نگر یاتری نواس کا دورہ ، انتظامات کا جائزہ لیا
جموں
آئی ٹی آئی جدت کاری کیلئے ‘ہب اینڈ سپوک ماڈل پر تبادلہ خیال
جموں
عارضی صفائی ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال تیسرے روز بھی جاری قصبہ میں ہرسو گندگی کے ڈھیر جمع، بیماریاں پھیلنے کا خطرہ لاحق
خطہ چناب

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 12, 2025
جمعہ ایڈیشن

قرآن مجید اور انسان کی فطرت فہم و فراست

June 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?