علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ وادی کشمیر کی وہ نابغۂ روزگار شخصیت ہے جس نے پورے عالم میں اپنی علمی قابلیت کا لوہا منوایا۔ وادی لولاب کے ایک گمنا م گاؤں ورنو کے پیر خاندان میں جب اس نے اپنی شعور کی آنکھیں کھولیں اور گھریلوی تعلیم و تربیت سے لبریز ہوکر اپنی مزید علمی پیاس بجھانے کی خاطر ریاست کے حدود سے باہر ہزارہ پھر دیوبند کی راہ لے لی اور اس دور کے جبال العلم شخصیات سے اپنے آپ کو سیراب کیا تو سوائے اس کے خصوصی استاد حضرت شیخ الہند ؒ کے کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ مستقبل قریب میں یہ ہونہار طالب علم اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے چمکنے اور اس کی شہر ت کو چار چاند لگانے کا باعث ہوگا۔ حضرت شیخ الہند ؒ پہلے ہی اس ہونہار نوجوان عالم کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اندازہ کرچکے تھے، اس وجہ سے انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ کو انگریز سامراج سے وطن کے استخلاص میں سرگرم کرکے اپنی علمی مسند ان کے حوالے کردی ۔ علامہ موصوف نے اپنے استاذ کے حکم کی تعمیل میں اپنی خداداد علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس مسند نشینی کا ایسا حق ادا کیا جس کے اثرات صدیوں تک علمی دنیا پر چھائے رہیں گے۔
موصوف کے ذاتی کمالات اور علمی تبحّر کئی ریسرچ اسکالروں اور سوانح نگاروں نے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق مقالے و کتابیں شائع کی ہیں جن کی مقدار دس تک پہنچتی ہے۔حال ہی میں (مورخہ ۱۰؍دسمبر ۲۰۱۷ئٔ) اس سلسلہ کی ایک کڑی ’’فخر کشمیر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ‘‘ کے نام سے محترم نذیر احمد قادری ساکنہ پٹن کی ترتیب دی ہوئی کتاب کی کلچرل اکادمی کے زیر اہتمام اکسا ہوٹل میں رسم رونمائی ہوئی جو ایک حوصلہ افزا اور قابل ستائش عمل ہے ۔ علامہ موصوف پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ مجموعی طور ان کی زندگی کے حالات و واقعات پر زیادہ مشتمل ہے ۔ علامہ بنوری اور شیخ ابو الفتح ابوغدہ الشامی نے اگر چہ ان کے علمی تبحرکے بعض گوشوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، تاہم وہ بھی ان کے علمی کارناموں کا مکمل تعارف نہیں ہے۔ یقینا یہ دو حضرات ایسے تھے ،اگر یہ علامہ موصوف کے علمی مباحث کی تشریح و تسہیل کا بیڑا اٹھاتے تو یہ کام تشنۂ تکمیل نہ رہتا ۔ علامہ بنوری ؒ نے تو اتنا ضرور کیا کہ ان کی تصنیفات و تحریرات کو مضبوط و مطبوع کرکے انہیں محفوظ کیا اور اپنی تصنیفات بالخصوص نفحۃ العنبر اور معارف السنن میں اہم مسائل کے متعلق ان کی آراء و تحقیقات کو پیش بھی کیا تاہم مجموعی طور ان کے علوم ابھی تک تشنۂ تسہیل و تشریح ہیں۔
راقم الحروف کے زیر ادارت جب رسالہ’’ اذان سحر‘‘ نکلتا تھا تو اس کے اداریہ میں میں نے برصغیر کے علماء کو اس طرف متوجہ کیا تھا اور زبانی طور بھی اپنے استاد حضرت مولانا انظر شاہ صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے درخواست بھی کی تھی کہ یا تو آپ ہمت کرکے اس کام کو از خود انجام دے دیں یا اپنے متعلقین علماء کے ذریعہ خود اپنی زیر نگرانی انجام دلوادیں۔ میری اس گذارش پر حضرت والا نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں نے مولانا محمد یوسف لدھیانوی شیخ الحدیث دارالعلوم بنوری ٹاؤن کراچی سے عرض کی تھی کہ آپ اس سلسلہ میں کچھ کام کریں۔ انہوں نے اپنے مدرسہ کے ایک شاگرد استاد کو بلاکر یہ ذمہ داری لگا دی تھی کہ آپ مجھے اتنا کام کرکے ے دیں کہ علامہ کشمیری نے اپنی تحریروامالی میں جن کتابوں کے حوالے دئے ہیں ان کی فہرست تیار کردیں باقی کام آگے سوچیں گے۔ تین سال کے بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس کام کا کیا ہوا تھا تو انہوں نے کہا بمشکل ابھی تین ہزار کتابوں کی فہرست تیار ہوچکی ہے، ابھی تلاش کرنا بہت باقی ہے۔ اب آپ اندازہ کرلیجئے یہ صرف حوالہ جات کی فہرست کی بات تھی اس کے بعد جو اصل کام ان حوالوں کے دیکھنے اور پھر موازنہ کرنے اور پھر علامہ کی تحقیقات کو نکھارکر پیش کرنا یہ کتنا طویل اور صبر آزما کام ہے اور تبحّر و تعمّق کا متقاضی ہے۔
حضرت مولانا انظر شاہ صاحبؒ نے اس سلسلہ میں از خود ایک کوشش کا آغاز فرمایا تھا ’’نودراتِ انور ‘‘کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کی کشمیر یونیوسٹی میں ایک سیمینار کے اندر رسم اجراء کرائی گئی تھی اور ترمذی شریف کی شرح ’’العرف الزکی‘‘ ( جوعلامہ کشمیری کی تحقیقات پر مشتمل تھی) کا مواد علامہ کے مختلف تلامذہ سے حاصل کرکے دارالعلوم دیوبند کے ایک ہونہار استاد مولانا محمد عبداللہ المعروفی کو اس کی ترتیب و تشریح پر لگادیا تھا لیکن افسوس ابھی اس کی دوہی جلدیں شائع ہوئی تھیں کہ حضرت انتقال فرماگئے۔اس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس بات کی بہت کم امید ہے کہ علامہ موصوف کے علوم پر کوئی فرد یا ادارہ خوا طر خواہ کام کرسکے۔
یقینا یہ حق اہل کشمیر کا بنتا تھا لیکن اول تو کشمیر میں کوئی فرد ایسا ہے نہ کوئی ادارہ جو اس کام کے انجام دینے کا اہل ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اہل کشمیر کا عمومی مزاج زیادہ تر پیر پرستانہ رہا ہے ۔ ہم میں علمی ذوق شاذ و نادر ہی ابھرتا ہے۔ کشمیر کے علمی اُفق سے جو شخصیات ماضی میں ابھری ہیں ان کا دائرہ عمل زیادہ تر بیرون ریاست رہا ہے ۔مغلیہ دور حکومت میںجو یہاں کی علمی شخصیات تھیں ان کی قدردانی ہندوستان میں ہوئی ہے ،ڈوگرہ دور حکومت میں کشمیر کے اندر کسی علمی قابلیت کو حاصل کرنا یا کوئی علمی خدمت انجام دیناجوئے شیر لانے برابر تھا۔ اس دور میں جو حضرات اس محکوم ریاست سے باہر نکلے ان میںسے بعض نے پورے عالم میں اپنی صلاحیت و خدمات کا لوہا منوایا۔ ان حضرات میں تین شخصیات ایسی ہیں جن کی مثال بر صغیر میں نہیں ملتی ہے ۔(۱) حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال ؒ (۲) علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ (۳) سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ان تینوں کا میدان عمل بھی ہندوستان ہی رہا ہے اور وہیں سے کشمیر کی مظلومیت کی آواز بلند کرتے رہے اور حتی المقدور اس سلسلہ میں کام بھی کیا۔
جیسا کہ اوپر کہاگیا کہ اہل کشمیر کا عمومی مزاج پیر پرستانہ ہے، باالفاظ دیگر اہل کشمیر مسلسل غلامی کی وجہ سے مفاد پرستانہ ذہنیت کے حامل بنے ہیں ۔ اہل کشمیر اسی کو برگزیدہ شخصیت تسلیم کرتے ہیں اور اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں جن کی دعاؤ ں اور وظائف وعملیات سے ان کے دنیاوی کام نکل آئیں ،عملاًیہ قوم علم دوست واقع نہیں ہوئی ہے ۔اسی وجہ سے یہاں کی چیدہ چیدہ شخصیات کو ریاست سے باہر کی راہ لینی پڑی جہاں ان کی واقعی قدر دانی ہوئی ہے۔ اہل کشمیر کے اس مزاج کو آپ اس بات سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جو حضرات یہاں صاحب علم و فضل پیدا ہوئے ان کی یہاں پر کوئی پذیرائی نہیں ملی ۔ دسیوں صدی ہجری میں حضرت شیخ یعقوب صرفی اور ملا کمال و ملا جمال( رحہم اللہ ) ایسے صاحب علم و فن تھے جن سے حضرت مجدد الف ثانیؒ نے بھی سیالکوٹ میں استفادہ کیا، اس طرح بعض علماء و محدثین یہاں پر ایسے بھی پیدا ہوئے ہیں جن کا تقابل برصغیر کے بڑے بڑے علماء و محدثین سے کیا جاسکتا ہے لیکن اہل کشمیر ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں اورنہ ان کی علمی خدمات کا کوئی تعارف ہے ۔ جن چند بزرگوں کی کشف و کرامات کو نون مرچ لگاکر بیان کیاجاتا ہے وہ محض اس لئے ہے کہ بہت سے لوگوں کے دنیاوی مفادات ان داستان گوئیوں سے وابستہ ہیں۔ ان بزرگان کی اصل تعلیمات و خدمات کا داستان گوؤوں کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، حالانکہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے کشمیر ہی کو اپنا مسکن اور محنت کا مرکز بنایا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ جب اہل کشمیر کا یہ سلوک رہا ہے لیکن جو حضرات کشمیر سے باہر نکل کر علمی و فکری افق پر چمکے ان کوفراموش کرنے کا گلا ہی کیا ہے۔علامہ کشمیری ؒ بھی ان مظلوم ہستیوں میں سے ایک ہستی ہیں جن کی وجہ سے اہل کشمیر باہر کی دنیا میں تو فخر کرتے ہیں لیکن ان کی حق ادائی کیا ہوئی؟ کاش مجھے کوئی اس کی جانکاری سے نوازے۔
علامہ کشمیریؒ کے متعلق بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیر کو کیا دیا ، میرا ان سے یہ سوال ہے کہ پہلے آپ بتایئے کہ انہوں نے ان سے کیا لیا؟ دینے کے لئے تو ان کے پاس عالمی پیمانہ کا سرمایہ تھا۔ یہ وہ واحد شخصیت تھی جس سے علامہ اقبال جیسا مفکر ایسا متاثر ہوا تھا کہ انہوں نے بے ساختہ یہ جملہ کہا تھا کہ پانچ سو سالہ تاریخ علامہ انور شاہ کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اقبال مرحوم نے حضرت شاہ صاحب ہی سے متاثر ہوکر’’ ملازادہ ضیغم لولابی ‘‘کے عنوان سے اپنی مشہور زمانہ نظم لکھی تھی۔ شیخ الازہر علامہ رشید رضا مصری نے صرف ان کا ایک خطبہ استقبالیہ سن کر اپنی اس حیرت کا اظہار کیا تھا کہ مارایت مثل ھذا الرجل قط ( میں نے پوری دنیا میں ایسا عالم نہیں دیکھا ) دکتور سعید احمد اکبرآبادی (علی گڑھ یونیوسٹی) اپنے دوستوں اور طلبائٔ سے یہ کہتے تھے کہ لوگ علامہ کشمیری کو کیا سمجھیں وہ کس عبقری شخصیت کا نام ہے۔غرض قوموں کا اصل سرمایہ وہ علمی شخصیات ہوتی ہیں جن کا فکر و کردار اس قوم کی روح ہوتی ہے اور زندہ قومیں اپنے اس سرمایہ کی حفاظت و ترویج میں ذرہ بھر غفلت نہیں برت لیتی ہیں۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ مخلص اور بے لوث علمی ہستیوں اور داعیانہ شخصیتوں کی بدولت اسلام زندہ و تابندہ رہا ہے۔ امام غزالیؒ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ ،عز الدین عبدالسلام ؒ، علامہ بن حجر عسقلانیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، مجدد الف ثانی ؒحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرہ حضرات کے کارناموں سے جو حضرات واقف ہیں وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
فون نمبر9419445570
لولابی۔۔۔ سرینگر کشمیر