شاعرِمشرق
پروفیسر رفیع الدین ناصر
ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبالؔ کو ہم شاعر مشرق ، فلسفی، مفکر، وطن پرست شاعر کی حیثیت سے بہت حد تک جانتے ہیں۔ شاعر مشرق کے پیغام اور فلسفہ کے تعلق سے جتنی خامہ فرسائی ہوئی ہے شاید ہی کسی اور شاعر کے حصے میں آئی ہو۔ علامہ اقبالؔ کی اردو اور فارسی شاعری کا اگر ہم گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کریں تو اُن کی سائنسی سوچ و فکر اور سائنسی پیغام واضح ہوتا ہے اور اس موضوع کی جانب بہت کم ادباء و فضلاء نے توجہ دی ہے۔
علامہ اقبالؔ ایک دوراندیش ، روشن خیال، جدید سائنسی تحقیقات سے مطابقت رکھنے والا مدبر اور مفکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں جابجا مختلف سائنسی مفروضوں کا اور دیگر علوم کا حوالہ ملتا ہے۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں جب علامہ اقبالؔ کی شاعری اپنے عروج پر تھی، اُس وقت سائنس نئی کروٹیں لے رہی تھی۔ اس دوران ان کے ذاتی مطالعہ میں سائنس و انجینئرنگ کی بیس سے زائد کتب رہیں جو اس وقت کے بہترین ماہرین کی لکھی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے ان کی شاعری میں جدید سائنسی علوم کا تاثر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اردو اور فارسی کے واحد شاعر تھے جن کو صحیح معنوں میں سائنسی شعور کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبالؔ کے ذاتی کتب خانے میں سائنس اور اس سے جڑے کل ۵۲۰؍کتابیں انگریزی زبان میں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کتب طبعی علوم (Physical Sciences) پر ہیں، جبکہ ۱۷؍کتابیں آئن سٹالین کے نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) کے موضوع پر ہے۔ اس موضوع کو علامہ اقبالؔ نے بہت اہمیت دی۔ اس کے علاوہ اقبالؔ نے ہائزن برگ کے نظریہ لاتعین‘ میکسن پلانک کے کوائنٹم نظریے‘ کی بھی ستائس کی ہے۔ ان کے علاوہ ان کے مطالعہ میں Bergson (بارہ کتابیں) ، Hegelian(نوکتابیں) ، Nietzsche (گیارہ کتابیں ) اور مولانارومی کی گیارہ کتابیں زیرمطالعہ رہیں۔
علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری میں علم نبات ، علم حیوان ، علم ماحول، طبیعات ، کیمیات ، ارضیات، کونیات (Cosmology)، جغرافیہ ، ریاضی، انجینئرنگ وغیرہ علوم کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ علامہ اقبالؔ کی شاعری میں اگر نباتات کو تلاش کیا جائے تو اُن کی شاعری میں سو سے زیادہ مختلف اقسام کے پھولوں، پھلوں، پتوں اور درختوں کے مختلف حصوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان تمام کو یکجا کر کے بیان کیا جائے تو کئی کتابیں مرتب ہوسکتی ہیں۔ اقبالؔ نے اپنی شاعری میں ۶۰؍سے زائد مختلف اقسام کے حیوانات ، حشرات الارض، پرندوں وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اقبالؔ نے موسیقی و صورت گیری کو مربوط کر کے بیان کیا ہے۔ آج کے اس جدید سائنسی ترقی یافتہ دور میں ہم جان چکے ہیں کہ قدرت کے کارخانہ میں کئی کہکشائیں موجود ہیں اور اُس میں ہماری زمین ایک انتہائی چھوٹاسا ذرہ ہے۔ یہ بات علامہ اقبالؔ نے آج سے سو سال قبل محسوس کی اور اسی بات کو مدنظر رکھکر نوجوان نسل کو مسلسل جدوجہد کرنے، علم حاصل کرنے، قناعت نہ کرنے کی تلقین ان اشعار میں کی۔ ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اقبالؔ کا فلسفہ خودی صرف روایتی علوم کی حصولیابی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس توسط سے اقبالؔ نے پیام دیا کہ ہمارے نوجوان تمام جدید علوم پر دسترس حاصل کریں۔ اُن کی گہرائیوں تک پہنچیں اور اس کے بعد دنیا کے سامنے ایجادات و تحقیقات کا انبار لگادیں تاکہ دنیا اس سے فائدہ اٹھائے۔ انسانیت کی خدمت ہو، اس کا اجر عظیم ملےاوراقبالؔ اس جدوجہد کو روکنا نہیں چاہتے بلکہ وہ بہت اسرار کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد تا حیات جاری رہنا چاہئے۔ ؎
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو اب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
علامہ اقبالؔ کی دوسری مشہور تصنیف ’’رموزِ بیخودی‘‘ یہ ۱۹۱۸ء میں منظرعام پر آئی۔ اس وقت سائنس اتنی ہی ترقی کرسکا کہ پانی کے بہاو سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ شمسی توانائی (Solar energy) کا استعمال کر کے بجلی پیدا کرنے کا باضابطہ سلسلہ ۱۹۶۸ء میں شروع ہوا جبکہ علامہ اقبالؔ کی دوررس نگاہیں ان سائنسی دریافتوں پر لگی ہوئی تھیں ۔علامہ اقبالؔ کی دوراندیشی اور جدید سائنسی تحقیقات سے امیدیں ، نوجوانوں میں سائنسی بیداری پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ علامہ اقبالؔ اس بات کی رہنمائی کررہے ہیں کہ ہوا کی توانائی کو اپنے بس میں کر اور اس سے فائدہ اٹھا۔ اس رہنمائی کے ۶۲؍سال بعد یعنی ۱۹۸۰ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست نیوہیمپ شائر سے پیشہ وارانہ طریقہ سے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا عمل شروع ہوا اور اب یہ گاؤں گاؤں قریہ قریہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سے علامہ اقبالؔ کی سائنس پر دسترس واضح ہوتی ہے۔علامہ اقبالؔاپنی نظم ’’توسیع حیات ملیہ از تسخیر قوت نظام عالم است‘‘ میں قوم کو نئی سائنسی دریافتوں کا سہارہ لے کر محنت کر کے قدرت کے خزانے میں موجود بے پناہ ثروت کو حاصل کر کے ترقی کی نصیحت ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ؎
دست رنگین کن زخون کہسار
جوئے آب گوہر از دریا بر آر
آج ہم جانتے ہیں کہ جب ایک ایٹم کو توڑا جاتا ہے ، اس میں سے ایک مرکزہ نکلتا ہے، اس مرکزے کے اندر جھانکیں تو اس میں بے شمار الکٹرون ، پروٹون ، نیوٹرون دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی ایک قطرہ بھی اپنے اندر دریا کی گہرائی رکھتا ہے اور یہ بات انھوں نے کہی ’’ہر قطرہ دریا میں دریاکی ہے گہرائی۔‘‘جب سائنس نے بہت زیادہ ترقی نہیں کی تھی، اُس وقت بھی علامہ اقبالؔ کا سائنسی مطالعہ بہت وسیع تھا اور وہ جانتے تھے کہ انسانی آنکھ کائنات کا صرف ۴؍فیصد حصہ ہی دیکھ سکتی ہے اور بقیہ ۹۶؍فیصد حصہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہے ۔انہوں نے زندگی کے فلسفہ کو بہت گہرائی سے سمجھاہے۔ اُن کے نزدیک زندگی ایک تسلسل کا نام ہے ، جس میں حرکت لازمی ہے، جس سے تغیر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ آج سائنس بھی یہی بات کہتی ہے۔سائنس کی تحقیق کی کی رو سے نظام کائنات کے تمام اجسام فلکی کی بقا مسلسل حرکت کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر یہ غیرمتحرک ہو جائے تو تمام اجسام فلکی ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ لیں گے ، جس سے اُن میں آپس میں ٹکراؤ ہوگا، اس کے نتیجہ میں سارا کائناتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اسی بنیاد پر علامہ اقبالؔ کہتے ہیں کہ سکون موت ہے اور مسلسل حرکت (Dynamism) ہی زندگی کی ضامن ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بنائی کائنات میں ہر ایک ذرہ اپنے مخصوص رفتار سے، مخصوص راہ پر حرکت پذیر ہے۔ اسی مسلسل حرکت کی وجہ سے زندگی کے تمام امور وقوع پذیر ہوتے ہیں، نئی تحقیقات ہوتی ہیں ، نئی ایجادات ہوتی ہیں ، نئے معرکہ سرزد ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ اگر جدوجہد یا حرکت رک جائے گی تو موت واقع ہوجائے گی۔
’’جاویدنامہ‘‘ علامہ اقبالؔ کی فارسی مثنوی ہے جو تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی جس کو علامہ اقبالؔ اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب دراصل اقبالؔ کا خیالی افلاس کا سفرنامہ ہے جس میں ان کے رہبر مولانا رومی ہیں۔ اقبالؔ کا یہ تخیلی سفر اگر ہم سائنس کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؔ نے اپنا سفر ایک منجھے ہوئے سائنسداں کی طرح ترتیب سے کیا اور نظام شمسی کے تمام سیاروں پر رک کر مختلف نصیحت آمیز باتیں بتلائیں۔ اس میں ایک خاص بات ہے کہ وہ جب مریخ پر پہنچتے ہیں تو وہاں پر ان کی ملاقات نبیہ مریخ سے ہوتی ہے۔ ماہرین نے اس فرضی کردار کو تمثیلی طور پر مغرب کی تحریک آزادی نسواں سے مراد لیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس خاتون کی زبان ۱۹۳۰ء میں جو باتیں بتلائیں وہ آج بالکل صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ نبیہ ، علامہ اقبالؔ سے کہتی ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب انسان سائنس کی مدد سے عورت کے بدن کے اندر جنین(Embryo) کو دیکھے گا، اُسے سمجھے گا اور تم دیکھوگے کہ زندگی کی کھیتی اپنے حسب خواہش پیدا کرسکوگے ، یعنی اپنی مرضی کے مطابق بیٹے یا بیٹیاں پیدا کرسکوگے۔ ماں کے پیٹ میں پلنے والا بچہ کچھ اور ہی ڈھب سے پرورش پائے گا، ماں کے پیٹ میں رحم میں رات بغیر صبح ہوجائے گی۔ اب ہم سائنسی پس منظر میں ان خیالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس کے ۲۶؍سال بعد یعنی ۱۹۵۶ء میں الٹراساؤنڈ کی دریافت ہوئی ، جس کی مدد سے سونوگرافی کا استعمال شروع ہوا ، جس سے جنین کو دیکھنا آسان ہوا۔ اس کے بعد سائنس نے ترقی کی اور پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدائش ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔
علامہ اقبالؔ کی شاعری اور خطبات کے توسط سے ہم سائنس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؔ کا سائنسی مشاہدہ انتہائی وسیع تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں فزکس ، کیمسٹری ، نباتات ، حیوانیات ، ماحولیات ، ریاضیات ، جغرافیہ ، کونینیات کے علاوہ تمام علوم پر خامہ فرسائی کی۔ اقبالؔ کا فکر و فلسفہ مذہب یہ سائنس اور فلسفہ کے عناصر کی بہترین ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔ جس کا واضح مقصد انسان کی مکمل اور ہمہ جہت ترقی اور فلاح ہے۔ اقبالؔ کا زماں و مکاں کا تصور ، فلسفہ حیات، فلسفہ خودی اور دیگر علوم کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے مغربی تعلیمی اداروں سے خود اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کی اور پھر اسلام کی علمی و فلسفیانہ انداز میں وضاحت پیش کی جو دورِحاضر میں اسلامی فکر کی تجدید میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے خطبات میں سائنسی اور علمی اندازِفکر کی اہمیت کا کھل کر اظہار کیا۔علامہ اقبالؔ کی روشن دماغی اور حقیقت شناسی دراصل صدی کے چند اہم ترین سائنسی حقائق اور فلسفیانہ مسائل پر اُن کی نظر نہ صرف گہری ہے بلکہ اس پر ناقدانہ تبصرہ کر کے انھوں نے ہمیں مستقبل میں سائنسی رمزشناسی کے لئے کافی حد تک آگہی بھی فراہم کی ہے۔ وہ سائنس اور قرآن کی روشنی میں ہمیشہ نصیحت آمیز باتیں نوجوانوں کو کہتے رہے۔ تحقیقی ، تجسس اور قدرت میں پنہاں رازوں کو جاننے کے لئے ہمیشہ تلقین ان کی شاعری میں دکھائی دیتی ہے۔ کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کے مشاہدہ کی نصیحت انھوں نے برسوں پہلے ان اشعار کے توسط سے کی جو آج بھی ہر نوجوان کے لئے مشعل راہ ہے۔
(رابطہ۔ : 9422211634)
[email protected]