جوں جوںکتے بھونکتے جا رہے تھے یوں یوں اس کے غصے کا پارہ چڑھتا جا رہا تھا۔غصہ! جو کبھی کبھی جھنجلاہٹ میں بدل جاتا تھا ۔ دانت کھٹ کھٹ بجنے سے ایک دو با ر اپنی زبان بھی کاٹ لی تھی۔ اگر چہ اس کی آواز میں کوئی درد کوئی سوز نہ تھا پھر بھی وہ مسجد کا موذن تھا۔ جوں توں کرکے اذان تو دیتا تھا لیکن کتوں سے بہت پریشان تھا۔ وہ اذان شروع کرتا تھا ،کتے بھونکنا شروع کرتے تھے۔ اذان ختم، کتوں کا بھوکنا بند۔ ۔۔ اس نئی کالونی میں آئے ہوئے اسے چھ سال ہوچکے تھے۔ یہاں آتے ہی مسجد فنڈ میں بڑی رقم کیا دی، ساری کالونی میں اس کا چرچا ہوگیا ۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے تک کبھی کبھار صبح وشام اذان دیتا تھا اور رٹائرہونے کے بعدمسجد کا سارا معاملہ ہاتھ میں لے لیا اور پانچوں وقت اذان بھی دینے لگا۔ یوں تو وہ ساری کالونی میںاب عزت دار آدمی بن چکا تھا لیکن نہ جانے اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ یہاں سبھی اسے دکھاوے کی عزت کرتے ہیں۔ دوسری طرف اذان کے وقت کتوں کی ہڑ بونگ اس کے لئے کسی عذاب سے کم نہ تھی ۔ وہ اکثر کتوں کے پیچھے دوڑتا تھا۔ کئی بار میونسپلٹی سے بھی رجوع کیا۔ کتے گاڑیوں میں بھر بھر کر بند کروائے۔ زہردے کر مروائے ۔ اذان کے وقت لوڈا سپیکر کی آواز بھی تیز رکھتا تھا مگر پھر بھی وقتِ اذان نہ جانے کتے کہاں سے آجاتے تھے اور عجیب عجیب آوازوں میںرونا شروع کردیتے تھے۔ کتوں کی آواز میں اس کی آواز دب جاتی تھی ۔۔۔
وہ ایک چھوٹا سا سرکاری ملازم تھا لیکن ملازمت کے دوران بڑا پیسہ کمایا ۔ بہت زیادہ بددیانت اور رشوت خورآدمی تھا ۔ اس کا چہرا کرخت۔ دل سیاہ اور دماغ شاطر تھا ۔ پہلے پہل ملازمین کی ٹریڈ یونین کا ورکر بن گیا۔ سرکاری کاموں میں رخنے ڈالنا اس نے اپنا معمول بنایاتھا ۔ دفتروں میں ہنگامے اور دنگے کروانے میں پیش پیش رہتا تھا۔کسی کی کھچائی کرنا ۔ کسی آفیسر کا گریباں پکڑنا یا کسی ذی عزت کی عزت کو تارتارکرنا اس کاخاصا تھا ۔ اسلئے جلد ہی ملازمین میں مقبول ہوگیا اور ٹریڈ یونین کے بااثر لیڈروں میں شمار ہونے لگا۔ دوران ملازمت لیڈری کم اور کمیشن خوری زیادہ کرتا تھا۔ بلا امتیاز عام لوگوں اور چھوٹے ملازمین کو کسی بھی بہانے پھنساتا تھا اور ان سے بڑی بڑی رقمیں اینٹھ لیتا تھا۔ ہنستے ہوئے لوگوں کو بہت رلاتا تھا اور غم ذدہ لوگوں کی دل جوئی کے بدلے ان کا دل جلاتا رہتاتھا ۔ کورپشن کے کیوں میں کئی بار پھنسا لیکن ہمیشہ چھوٹ جاتا تھا ۔ کیونکہ کورپٹ نظام میں ایسے نام نہاد لیڈروں کی بڑی پذیرائی ہوتی ہے۔ ان کے غلط کاموںکی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔سرکاری آفیسر یہ سمجھ کر ایسے یونین لیڈروں کو ہڈی ڈالتے ہیں کہ پورا بھیڑ کھاتے وقت یہ ان پر بھونکیں گے نہیں بلکہ سامنے بیٹھے دم ہلاتے رہیں گے۔ اور خودپورا پورا بکرا بنا ڈکار لئے ہضم کرجائیں۔
پرانی بستی میں جہاں یہ رہتا تھا وہاں خارش زدہ کتوں کی بھرمار رہتی تھی۔ یہ جب بھی گھر سے نکلتا تھا یا گھر واپس ا ٓجاتا تھا تو یہ خارش زدہ کتے اس کے پیچھے بھونکتے رہتے تھے۔ وہ پتھر اٹھااٹھاکر ان کو مارتا تھا۔ ان کے پیچھے دوڑتا رہتا تھا۔ جب تھک ہار کر اپنی راہ لیتا تھا تو یہ کتے آسمان کی طرف منہ کرکے زور زور سے رونا شروع کردیتے تھے اور بستی کے میلے کچیلے بچے اسے دیکھ کر ہنستے رہتے تھے۔ بستی کے گندے بچوں کی مذاق بھری کلکاریوں اور خارش زدہ کتوں کی ہڑبونگ سے یہ بہت زیادہ پریشان تھا اور اب یا جب اس خارش زدہ بستی سے دور بھاگنا چاہتا تھا۔۔ ۔ پھر اس کے پاس بہت سارا پیسہ آگیا اور اس گندی بستی کو خیربادکہہ کر یہاں نئی کالونی میں زمین خریدی ۔ کوٹھی بنائی اور عیش و آرام سے لیس ساری چیزوں کے ساتھ یہاں منتقل ہوگیا۔ لیکن تب اسے ذرا بھر بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھاکہ بستی سے جاتے وقت بستی کے وہ سارے خارش ذدہ کتے بھی اس کے ساتھ ہی منتقل ہوچکے تھے۔ اب جب بھی یہ اذان دینا شروع کردیتا تھا توکتے زور زور سے بھوکنا شروع کردیتے تھے ۔۔۔
رمضان کے مقدس مہینے میں یہ صبح و شام دو بار ریڈیو ضرور سنتا تھا۔ ایک سحری اور دوئم افطار کے وقت، کہ اس وقت ریڈیو سے اچھے اور نصیحت آموز پروگرام آتے تھے۔ ۔۔ کسی علاقے میں طاعون پھوٹ پڑا تھا۔ یہ اس نے ریڈیو سے سنا ۔ وہاں بچے، عورتیں اور بوڑھے مررہے تھے۔ ٹیکے ، ویکسین اور علاج معالجہ بہت ہورہا تھا لیکن بیماری بڑھتی ہی گئی جوں جوں دواکی۔ بیماری کی وجہ وہ کنواں تھا جس کا پانی پورا علاقہ پیتا تھا اور اس کنویں میں کبھی کوئی کتا گرا تھا۔ کنواں گہرا تھا۔ پانی نکالا گیا پر کتا نہ نکال پائے ۔ پھر اوپری اوپری صفائی ستھرائی کے بعد لوگ پھر سے کنویں کا پانی پینے لگے۔ پر کئی سالوں کے بعد علاقے میں بیماری پھوٹ پڑی اور لوگ مرنے لگے ۔ ا س پرکسی برزگ نے کہاتھا
’’ ارے اللہ کے بندو پہلے کنویں سے کتے کو تو نکالو ۔تب دوا دارو کام کرپائے گا ۔‘‘
یہ واقعہ تیر کی طرح سیدھا اس کے دل پر لگا۔وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔ بہت کھوج لگائی۔ اپنے من میں جھانک کر دیکھا تو دھنگ رہ گیا۔ یہ کتوں کی ہڑ بونگ اس کے اندرسے ہی ہورہی تھی ۔ پرانی بستی کے وہ سارے خارش ذدہ کتے اس کے ساتھ ساتھ ہی تھے اور گندے گندے بچوں کی کلکاریاں اس کے رگ وریشے سے ا بھر رہی تھیں ۔۔۔
رمضان کا پورا مہینہ خود کو گھر میں اسیر کرکے رکھ دیا۔ نہ اذان دی اور نہ ہی کسی معاملے میں دخل دیا۔ چپکے سے مسجد جاتا اور چپکے سے واپس گھر آجاتا۔ کالونی کے لوگوں نے بہت بار پوچھا۔ طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بناکر چپ سادھ لی۔ پورا مہینہ من کے کنویں سے خارش ذدہ کتوں کو باہر نکالتا گیا۔ گدھلا اور میلا پانی سارا باہر نکالا۔ آج عید کا چاند دیکھا گیا۔ وہ رات کے پچھلے پہر مسجد گیا۔ سجدے میں گرا اوربہت رویا۔ پھرخوف اور امیدکے ملے جلے جذبے کے ساتھ لوڈا سپیکر کا سوئچ آن کیا اور اذان دی۔ اذان دیتے وقت اُس پر اتنی رقعت طاری ہوگئی کہ اس کا خیال کی طرف نہ بھٹکا اور نہ کہیں سے کوئی کتا رویا تھا ۔ آج مسجد میں باقی دنوں سے زیادہ لوگ آگئے تھے اور اس کو گلے لگا لگا کرعید کی مبارک باد دے رہے تھے ۔۔
افسانہ نگار نے افسانہ ختم کیا تو سارے نقاد جیسے اس پر ٹوٹ پڑے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔تنقیدکا نچوڑ یہ تھا کہ ایک گناہ گار ایسے سستے میں کیسے چھوٹ جائے گا۔ اس کو تو بہت زیادہ سزا ملنی چاہئے تھی۔ تب افسانہ نگار نے ایک ہی بات کہی۔سزا تو میں بھی اسے دے رہا تھا اور وہ بھی ایسی کہ گناہ گاروں کے رونگٹھے کھڑاہوجاتے لیکن اگر میں نے خدا کا یہ حکم سن نہ لیا ہوتا۔
’’بندے تیرا گناہ کتنا بھی بڑاکیوں نہ ہو لیکن میری رحمت سے بڑا نہیں ہے۔ تم جب بھی توبہ کی طرف آئو گے میں تمہارے سارے گناہ معاف کردوں گا۔۔۔‘‘
���
رابطہ؛ اسلا م آباد،فون نمبر9419734234