عظمتِ قرآن

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read
قرآن مجید کی عظمتیں اور رفعتیں اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہیں کہ اس آخری آسمانی صحیفہ میں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات عالمین کے حقوق محفوظ رکھے ہیں جب کہ اس کو عملانے میں مومنین کی زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کا راز پوشیدہ رکھاہے،اس سے ملت اسلامیہ کوعزت نصیب ہوئی اور اس سے دوری و مہجوری نے امت مسلمہ کو پست و پامال کردیا ۔ یہ مومنین کاملین کیلئے ہدایت ، رحمت اورشفا اورجس نے قرآن کے ان تین گوشوں فیض یاب ہوکر اپنے او پر ظلم کیا ،اس کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ کام ا للہ قلوب ِمطمٔنہ کے لئے چراغ راہ اورمذبذبین کے لئے اتمام حجت ہے۔وہ الکتاب جو ہر زمانے اور ہر مقام کے مومن کیلئے سب کچھ واضح وعیاں کر تی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔اس کے پڑھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی لفظ ’’تلاوت‘‘نازل کیا جو اور کسی منزل اللہ کتاب کیلئے نازل نہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت اپنے اوپر ذمہ لی ہے،اس لئے یہ آج بھی من وعن موجود ہے ۔ بحیثیت نازل کنندہ قرآن اللہ نے مشرکانِ مکہ کو للکار ا :ہے کوئی جو اس قرآن کے مقابلے میں ایک آیت کا ٹکڑا یاکوئی سورہ لاسکے ؟ ہر گز نہیں ۔عرب کے ادباء،شعراء، وفضلاء جن کے فن کا اعتراف خود صاحبِ قرآن حضرت سرور کائنات صلی ا للہ علیہ وسلم کو بھی تھا لیکن باوجود آں سبعہ معلقات جو خانہ کعبہ کے مرکزی دروازے پر بطور چیلنج آویزان تھے ، قرآن کی جیسی سورت پیش کر نے میں وہ سب ناکام ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوئے ’’لیس ھذٰا کلام البشر‘‘ یہ کلام کسی انسان کا ہرگز نہیں ہے۔ وقت کے عرب مشاہیر وعوام عربی زبان پر دسترس ہونے کے باوجود قرآن مجید کے اسلوب، اعجاز ،الفاظ ،بیان ،نظم، اوزان، تہ درتہ معانی دیکھ کر حیران رہ گئے ۔مشرکانِ مکہ ا ورروساء عرب قرآن مجید کی حقانیت کے معترف تھے بلکہ اس کی تلاوت کی کشش،روحانی لذت دیکھ کر چپ چپ کے سنتے تھے ۔ جب انہیں اپنے اندر یہ احساس ہوا کہ کہیں ہماری مشرک وکافر قوم ہمیں قرآن سے لذت یاب ہوتا ہوا نہ دیکھے کہ وہ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں گے تواپنی قوم سے کہا جب مسلمان قرآن کی تلاوت کریں تو ہم شور مچائیں تاکہ اس کی تلاوت ہم پرغلبہ نہ کرسکے ۔قرآن مجید کی عظمت خود اللہ تعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے فرمائی کہ اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل ہوتا تو خشیت ِالٰہی سے متحمل نہ ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتا کیونکہ خدا کے کلام میں جلال ہے جس طرح خدا کے نورمیں جلال ہے ۔
قرآن کریم کی عظمت ،تلاوت ، بیان سے حضرت سرور دو عالم  ؐنے ۲۳؍سال میں بساط عرب کی کایا پلٹ دی کہ اس کے احکام، نصائح ،بشارات، نذارت ، واقعات ، قصص الانبیاء ؑ،پیش گوئیاں ، علم فلکیات ، نباتات، جمادات، تخلیق انسان ، غزوات ، احوالِ قیامت،حساب وکتاب، جنت وجہنم ، عبادات ، معاملات ، عقائد، اخلاق ، امانات ، حد تعذیر، عقوبات، جزا وسزا ، امت سابقہ کے احوال،عجائب قرآن ، معجزات و دیگر علوم سے آشنا کرکے بنی نوع انسان کو اسلام کے دائرے میں لایا۔ خدا تعالیٰ نے اس دین کو پسندیدہ وآخری پیغام فرمایا کہ اب قیامت تک کسی اور پیغام یا پیغمبر کی ضرورت نہیں ہے اور نہ قرآن مجید سے الفاظ واحکام میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔اس قرآن مجید کی عظمت یہ ہے کہ کوئی بھی فرد بشر از خود کامیاب نہیں ہوگا جب تک نہ قرآن مجید کے حامل سرور دوعالم ؐ کا مطیع ہوگا ورنہ قرآن ان لوگوں نے بھی پڑھا اورمانا جنہوں نے ابھی بھی اس پیغمبر ؐ پر ایمان نہیں لایا بلکہ وہ گمراہ ہی ہوگئے۔قرآن مجید کی عظمت کا ایک گوشہ یہ ہے کہ اس میں خدائے برحق نے دعا ئوں کی تحریک پیش کی جس میں الفاظ کو بہترین لڑی میں پرویا گیا ۔ربّنا الٰلھُم سے اپنے بندے کو قریب کرتا ہے بعض دعائیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خود سکھائے اور بعض دعائیں پیغمبروں کی عاجزی کی شکل میں اس کتاب مبین میں ہمارے لئے محفوظ کئے۔ ان دعائوں اوراقسام ِ قرآن پر بے شمار کتابیں منصہ شہود پر آئے جن میں ان دعائوں کی تشریح ،تاثیر بیان ہوئی، اللہ تعالیٰ نے جن متبرک اشیاء کی قسم کھائی ہے، اُن کی بھی تفسیر ی انداز میں اقسام قرآن کے کتابہ شکل میںوضاحت ہوئی ۔ حضرت امیرالمومنین علی المرتضیٰ ؓنے غواص قرآن ہوتے ہوئے یہ بات فرمائی :’’پوچھو مجھ سے قبل اس کے کہ آپ مجھے پھر نہ پائو گے ‘‘ ۔مجھے زمین سے زیادہ آسمانی علوم خدا نے عطا فرمائے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورحضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ کونسی آیت کہاں نازل ہوئی ، مقامِ نزول ، اوقاتِ نزول ، اور شان نزول کاعلم رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا فرماتے ہیں کہ میں جیل کے اندر اس بات پر متفکر ہوا کرتا تھا کہ زوال امت کا سبب کیاہے تو مجھے القاء کیا گیا یہ سب آپسی تفرق اورمہجوری قرآن کا نتیجہ ہے۔ دراصل زوال امت کا سبب ایک ہی ہے کہ امت مسلمہ فہم قرآن اورتدبر قرآن سے دور ہوتی گئی ۔اللہ جل شانہ نے قرآن کو حبل اللہ قرار دیا، مضبوط رسی جو ٹوٹنے سے بے نیاز ہے لیکن اُس مومن کے ہاتھ سے یہ پھسل سکتی ہے جب اس کے ہاتھ پر دنیا ئے محبت کی چکنائی چڑ جائے گی تو رسی پھسل کر مسلمان کا مقام اسفل پہنچائے گی ۔ا س قرآن سے اہل عرب کی عظمتوں کو سرخاب کے پر لگ گئے مگر آج تعلیم گاہوں کی کثرت ، حفاظ  کی کثرت کے باوجود مسلمانوں کے اندر سب سے زیادہ اخلاقی تنزل ،مسلکی فسادات ، عقائد پر تقسیم کا ناسور پھیلتا جارہا ہے ۔دراصل یہ اس حقیقت کی صدائے بازگشت ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ سے وابستہ ہیں مگر اس کے روحانی اورعلمی حقیقت سے بہت دور و مہجور ہیں    ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر 
تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ ؓ سے پوچھا گیا کہ سورۃ الفاتحہ کیا ہے فرمایا َ یہ قرآن کی تمہید ہے اورباقی قرآن اس کی تشریح ہے۔عالم اسلام تاابدحضرت امیر المومنین عثمان ذی النورین ؓ کا مرہون منت ہے کہ آں جنابؓ نے مسلمانوں کو قرأت واحدہ پر جمع کرکے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا اور اس پر تمام اکابر صحابہؓ نے اتفاق اور اطمینان کا اظہار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ اختلافات اورمسالک کے باوجود تمام اہل ایمان اس قرآن کو صحیفۂ عثمانی سے یاد کرتے ہیں اور قرآن مجید کی خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میںایک ایک آیت پر دو دو ثقہ گواہوں کی موجودگی میں سپرد قرطاس کیاگیا ۔قرآن مجید کی عظمت کہ خدائے تعالیٰ نے رسول برحق صلی ا للہ علیہ وسلم پر حکم فرمایا کہ آپ حضرت ابی ابن کعب ؓ سے قرآن سنئے، جب حضرت ابی ابن کعب ؓ نے یہ خوشخبری سنی تو آنکھوں میں اشک لئے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھے کہ خدائے تعالیٰ نے میری قرآت ِقرآن قبول فرمائی ہے ۔آپ ؓ نے دورِ پاک میںسیدالقراء کا خطاب پایا اورحضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں آپ  ؓ کوتراویح کا امام مقرر کیا۔ اس قرآن مجید کے اول مفسر وشارح خود حضرت سروردوعالم ﷺ ہیں ۔قرون اولیٰ میں ترجمان القرآن امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ جن کے فہم قرآن کیلئے حضور اقدس ؐ نے دعا فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی المرتضیٰ ؓ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت ابی ابن کعب، مستند قابل قبول مفسرین تسلیم کئے گئے ۔ صحابہؓ کے بعد حضرت مجاہد، سعید بن جبیر ،عکرمہ، طائوس ، عطابن ابی رباح، سعید بن مسیب ،محمد بن سیرین، حضرت عروہ بن زبیر ،حضرت حسن بصری ،حضرشعبی ،حضرت زید بن اسلم رحہم اللہ وغیرہ اورمتاخرین میں حضرت امام رازی، امام بغوی، امام قرطبی، علامہ آلوسی ، حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحہم اللہ تھے۔ کشمیر میں اپنی مادری زبان میں حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ،حضرت سید میرک شاہ اندرابی، حضرت میرواعظ مولانا یوسف شاہ ،حضرت علامہ قاسم شاہ بخاری وغیرہ نے قرآن کر یم کی تشریحات و تدبرات سے کلام اللہ کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کا حق بھی ادا کیا ۔حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے’’ ترجمان القرآن‘‘ میں سے سورۃ الفاتحہ ( موسوم بہ اُم الکتاب ) کو میرے استاد محترم پروفیسر محمد عبداللہ شیدا ؔنے شیخ محمد عبداللہ کی استدعا پر کشمیری میں ترجمہ کیا جو کلچرل اکادمی نے طبع کرکے منظر عام پر لایا ۔غرض علمائے حق نے اپنی استعداد کے مطابق کماحقہٗ آسان زبان میں عظمت قرآن کو افادہ عامہ کے لئے منتقل کردیاجس سے عامتہ ا لناس پر تا قیامِ قیامت قرآن مجید کے روحانی و علمی گہرائیوں کی گرہ کشائی ہوتی رہے گی مگر پھر بھی ہمیشہ ہمیش قرآن کی عظمتیں اور رفعتیں بیان کر نے میں تشنگی باقی رہے گی۔ 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *