رحمت ِ عالمؐ
رئیس یاسین
تمام مسلمان عالم اپنے تہذیبی، جغرافیائی اور سیاسی اختلافات کے باوجود اس بات پر بطور عقیدہ متفق ہیں کہ رسول اللہؐ کی ذات گرامی پوری نوع انسانیت میں سب سے بہتر اور افضل ہے اور اس عقیدہ پر کسی تکرار یا بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ حضوراکرمؐعظیم ترین شخصیت ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انصاف پسند غیر مسلم اور مغربی مفکرین اور اسکالرس نے بھی والہانہ طور پر یہ گواہی درج کرائی ہے کہ رسول اللہؐ ہی عظیم ترین شخصیت ہیں اور ہم ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ محمدؐ اپنی ذات اور قوم کے لئے نہیں بلکہ دنیائے ارضی کے لیے ابر رحمت تھے۔ تاریخ میں کسی ایسے شخص کی مثال موجود نہیں، جس نے احکام خدا وندی کو اس عمدہ طریقہ سے انجام دیا ہو۔ (ڈاکٹر ڈی رائٹ)
۲۔عربی کو یہی نور اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لایا، عرب کو اسی کے ذریعے پہلے پہل زندگی ملی۔ بھیڑوں بکریوں کے چرانے والے لوگ جو ازل سے صحراؤں میں بے کھٹکے، بے روک ٹوک گھومتے پھرتے تھے کہ ایک ’’ ہیرو پیغمبر‘‘ ان کی طرف بھیجا گیا۔ ایک پیغام کے ساتھ، جس پر وہ ایمان لا سکتے تھے اور پھر سب نے دیکھا کہ جو کسی کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے، دنیا کے لیے قابل ذکر بن گئے۔(کار لائل)
۳۔ موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمدؐ اس دنیا کے حکمران (رہمنا) بنیں۔ (جارج بر نار ڈشا)
۴۔قارئین میں سے ممکن ہے کچھ لوگوں کو تعجب ہو کہ میں نے دنیائے جہاں کی مؤثر ترین شخصیات میں محمدؐ کو سر فہرست کیوں رکھا ہے اور مجھ سے وجہ طلب کریں گے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری انسانیت کی تاریخ میں صرف وہی ایک انسان ایسے تھے جو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پر کامیاب و کامران اور سر فراز ٹھہرے۔ (میئکل ہارٹ)
۵۔اسلام کے ذریعے محمدؐ نے دس سال کے اندر ہی عربوں کو شدید ترین نفرتوں، انتقامی جذبات، لاقانونیت، عورتوں کی ذلت، سود خوری، شراب خوری اور انسانی قربانیوں سے نجات دلائی، پھر اسی مذہب کے ذریعے آسمانوں کی اُس بادشاہت کو انھوں نے عملی طور پر اِس زمین پر قائم کردیا جس کی بشارت بڑے ذوق و شوق سے جناب مسیح نے دی تھی۔ (گبن)
۶۔عظیم محض اس لئے نہیں کہ وہ ایک روحانی پیشوا تھے۔ انھوں نے ایک عظیم ملت کو جنم دیا اور ایک عظیم سلطنت قائم فرمائی، بلکہ ان سب سے بڑھ کر ایک عظیم عقیدہ کا پر چار کیا۔ اس کے علاوہ اس لیے بھی عظیم تھے کہ وہ اپنے آپ سے بھی مخلص اور وفادار تھے، اپنی قوم سے بھی مخلص تھے اور اپنے اللہ سے بھی مخلص اور وفا دار تھے۔ (لیو نارڈ)
۷۔میں نے محمدؐ کی اس تعلیم کو بغور پڑھا ہے جو انھوں نے خلق خدا کی خدمت اور اصلاح اخلاق کے لئے دی ہے۔ میری رائے ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی اسلام کی تعلیم کی ہدایتوں پر عمل کرے تو وہ بہت کچھ ترقی کرسکتا ہے۔ میرے خیال میں موجودہ زمانہ میں سوسائٹی کی اصلاح کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو رائج کیا جائے۔ (پروفیسرہوگ، جرمن)
۸۔ محمدؐ ۔ عظیم الشان مصلحین میں سے ہیں جنھوں نے قوموں کے اتحاد کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ ان پر فخر کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ انھوں نے وحشی انسانوں کو نور حق کی جانب ہدایت کی اور ان کو ایک اتحاد اصلاح پسندی اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنے والا بنادیا اور ان کے لیے ترقی و تہذیب کے راستے کھول دیے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا بڑا کام صرف ایک فرد واحد کی ذات سے ظہور پزیر ہوا۔ (کائونٹ ٹالسٹائی، روسی فلاسفر)
اہم این رائے ” The Historical Role of Islam ” میں صاف صاف کہتا ہے اور بڑی تفصیل سے کہتا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو محمد عربیؐ نے برپا کیا تھا۔ حضورؐ کے جانشینوں اور خاں نثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق، شام، ایران، مصر تیزی کے ساتھ فتح کئے۔
دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں، لیکن حضرت محمدؐ نے غار حرا میں چند روز کے لئے جو خلوت گزینی اختیار کی تھی وہ اس قدر productive اور نتیجہ خیز تھی کہ اس سے ایک نئی قوم، نیا تمدن، نیا آئین اور حکومت وجود میں آگئی۔ ایچ جی ویلز برطانوی سائنٹیفک فکشن رائٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت رکھتا تھا۔ ایچ جی ویلز نے حضورؐ کی ذات مبارکہ پر خصوصاً خانگی زندگی کے حوالے سے اڑا ہیں، لیکن جب وہ اس باب کے اخیر میں پہنچتا ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کا ذکر کرتا ہے تو آنحضرتؐ کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور جاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’اگر چہ انسانی حریت، مساوات اور اخوت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں، لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربیؐ ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا۔ ‘‘سچ ہے کہ ’’ الفضل ما شھدت بہ الا عدای ‘‘ یعنی اصل فضیلت تو وہ ہے جس کا اعتراف و اقرار دشمن بھی کریں۔ گویا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ ظاہر بات ہے جو دوست ہے، عقیدت مند ہے اور محبت کرنے والا ہے، اس کی نگاہ تو محبوب کی خامی کو دیکھ ہی نہیں سکتی، اس کی طرف سے تو گویا وہ نابینا ہوجاتی ہے، جبکہ دشمن میں کوئی خیر اور خوبی نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر کوئی دشمن کسی کی فضیلت کا اعتراف کرے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
[email protected]