جموں// جموں وکشمیر حکومت نے کمسن بچیوں کے ساتھ عصمت دری کرنے والوں کے لئے سزائے موت کی تجویز والے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس آرڈیننس کا نام ’فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018‘ رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لئے مزید ایک آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کا نام ’جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018‘ رکھا گیا ہے۔ متذکرہ آرڈیننسز کو منگل کے روز وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صدارت میں منعقد ہونے والی ریاستی کابینہ کی میٹنگ میں منظوری دی گئی۔ کابینہ سے منظوری ملنے والے آرڈیننسز کو ریاستی گورنر نریندر ناتھ ووہرا کے پاس بھیجا جائے گا جن کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے اور کمسن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے لئے مختلف سزاؤں بشمول سزائے موت کے قوانین ریاست جموں وکشمیر میں نافذ ہوں گے۔ قانون وانصاف کے وزیر عبدالحق خان اور خزانہ، تعلیم اور محنت و روزگار کے وزیر سید محمد الطاف بخاری نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں متذکرہ آرڈیننسز اور میٹنگ میں لئے گئے دوسرے فیصلوں کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دی۔ عبدالحق نے کہا کہ ’فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2018‘کے نفاذ کے لئے رنبیر پینل کوڈ میں تبدیلی لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس آرڈیننس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 12 سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے قصورواروں کو موت کی سزا دی جائے گی۔متذکرہ آرڈیننس کا مسودہ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس کے طرز پر ہے۔ آرڈیننس میں التزام ہے کہ 12 سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے والے مجرم کو عمر قید کی سزا یا سزائے موت دی جائے گی۔ 13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے والے مجرم کو 20 سال یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ آرڈیننس میں التزام ہے کہ 12 سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ 13 سے 16 سال تک کی عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق بچیوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تمام واقعات کی تحقیقات خاتون پولیس عہدیدار کی سرپرستی میں ہوگی۔ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات دو ماہ کے اندر مکمل کرنی ہوگی۔ عدالتوں کی جانب سے ٹرائل چھ ماہ کے اندر مکمل کرلی جائے گی۔ جبکہ اپیل کے لئے بھی چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ ایسے تمام واقعات کی ٹرائل کیمروں کی نگرانی میں ہوگی۔ ضمانت کے شرائط کو سخت کردیا گیا ہے اور کسی ملزم کو آسانی سے ضمانت نہیں ملے گی۔ آرڈیننس کے مطابق مجرموں کی جانب سے ادا کیا جانا والا جرمانہ متاثرین کو دیا جائے گا۔ یہ جرمانہ اس وقت سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔خان نے ’جموں وکشمیر پروٹکشن آف چیلڈرن فرام سکچول وائلنس آرڈیننس 2018‘ کے التزامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ’یہ قانون 16 سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے ہے۔ اس کے تحت جنسی تشدد کے واقعات کی تحقیقات اور ٹرائل چیلڈ فرنڈلی ہوگی۔ جب کوئی بچہ جس کی عمر 16 برس سے کم ہوتی ہے عدالت میں آتا ہے اور پولیس کے پاس جاتا ہے، تو اس کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں سے پوچھ گچھ یا بیان لینا مطلوب ہوگا تو پولیس کے عہدیدار متاثرہ بچے کے گھر جاکر پوچھ گچھ یا بیان لیں گے ‘۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننسز کی رُو سے ملزمان کو ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے جرم نہیں کیا ہے۔