فکر و فہم
آمنہ يٰسين ملک
نیکی کا اصل حسن چھپانے میں ہے۔ وہ دعا جو تنہائی میں مانگی جائے، وہ آنسو جو صرف اللہ کے سامنے بہائے جائیں، وہ صدقہ جو ایک ہاتھ دے اور دوسرا جانے بھی نہ — یہی وہ اعمال ہیں جن میں برکت ہے، جن
میں روحانیت ہے اور جو دل کو پاک کرتے ہیں۔ مگر آج کے انسان کے لیے’’نظر آنا‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ روحانی صفائی، اخلاص، عاجزی — سب قربان کر دیے گئے ہیں ظاہری شان و شوکت پر۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’کامیاب وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، اور نامراد وہ ہے جس نے اسے آلودہ کر دیا۔‘‘(سورۃ الشمس: 9-10)۔دکھاوا نفس کی ایک آلودگی ہے۔ یہ دل کے آئینے پر دھند کی ایک تہہ ہے، جو اللہ کے نور کو دل تک پہنچنے نہیں دیتی۔ ریاکاری صرف گناہ ہی نہیں، بلکہ ایک ایسا پردہ ہے جو انسان کو اللہ سے دور کرتا ہے اور شیطان کے قریب لاتا ہے۔آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انسان نے اپنے آپ سے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے جھوٹا نہیں بنتا، بلکہ اپنے ہی سامنے بھی ایک جھوٹی تصویر کھینچ کر بیٹھا رہتا ہے۔ وہ سچ سے گھبراتا ہے کیونکہ سچ کا سامنا کرنا مشکل ہے۔
لیکن قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’اور کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے۔‘‘(سورۃ الکہف: 29)۔حق کو اختیار کرنا اور سچائی پر قائم رہنا ایک جہاد ہے اور یہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں اخلاص ہو، جسے دکھاوے سے نفرت ہو۔
جب دکھاوا انسان کے دل و دماغ پر غالب آ جاتا ہے، تو وہ محض ایک بناوٹی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔ نہ اس کے الفاظ میں وزن ہوتا ہے، نہ عمل میں اخلاص اور نہ دل میں سچائی۔ وہ ہر جگہ ماسک پہن کر جاتا ہے — کبھی عاجزی کا، کبھی دین داری کا، کبھی محبت کا اور کبھی غیرت کا۔ مگر جب اکیلا ہوتا ہے تو اس کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے — خالی، بیزار، پریشان۔ یہ اندرونی کھوکھلا پن اس کی شخصیت کو بگاڑ دیتا ہے۔ وہ کبھی خود سے مطمئن نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی تمام کوششیں ’’دکھنے‘‘ کے لیے ہوتی ہیں، ’’بننے‘‘ کے لیے نہیں۔ایسے انسان کی زندگی میں نہ سکون ہوتا ہے نہ برکت۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کے لیے تنگ زندگی ہوگی۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ: 124)
یہ تنگی صرف مالی نہیں، بلکہ دل کی گھٹن، بے برکتی، اور بے چینی بھی اسی میں شامل ہے۔ دکھاوے کی زندگی اللہ کے ذکر سے دور لے جاتی ہے، اور یہی اصل محرومی ہے۔
خاندانوں میں جھوٹی شان و شوکت کی دوڑ نے محبتوں کو برباد کر دیا ہے۔ شادیاں نمود و نمائش کا میدان بن چکی ہیں، جہاں نیت خلوص کی نہیں بلکہ مقابلے بازی کی ہوتی ہے۔ اگر کسی کا جہیز زیادہ ہو، یا تقریب زیادہ شاہانہ ہو، تو وہی خاندان ’’کامیاب‘‘سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی سطح پر دکھاوے نے اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ ہر کوئی کچھ اور ہوتا ہے اور کچھ اور دکھاتا ہے۔ دوستی میں وفا کم اور مصلحت زیادہ، دین میں روحانیت کم اور رسم زیادہ، سیاست میں خدمت کم اور شہرت زیادہ۔ ہر میدان میں اخلاص ہار رہا ہے اور دکھاوا جیت رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اللہ کسی بھی مغرور اور خودپسند شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ لقمان: 18)
یہ سب کچھ ہمیں اس مقام تک لے آیا ہے جہاں انسانیت کا اصل جوہر ماند پڑ چکا ہے۔ ہم دوسروں کے لیے جیتے ہیں، خود کے لیے نہیں۔ اللہ کے لیے جینا تو دور، اب ہم اپنی روح کی حقیقت سے بھی واقف نہیں۔ قرآن ہمیں بار بار دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دل کو پاک کریں، نیت کو خالص رکھیں اور ہر عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے کریں:’’کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘(سورۃ الانعام: 162)
مضمون کے اختتام پر، ہمیں اپنے دل سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ’’ کیا ہم وہی ہیں جو ہم دوسروں کو دکھاتے ہیں؟ کیا ہماری نیتیں خالص ہیں؟ کیا ہمارا ہر عمل صرف اللہ کے لیے ہے یا لوگوں کے لیے؟‘‘اگر نہیں، تو ہمیں پلٹنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ توبہ کے دروازے آج بھی کھولے ہوئے ہے۔ وہ اخلاص والوں کو پسند کرتا ہے، اور جھوٹے نقاب والوں کو تنبیہ کرتا ہے۔قیامت کے دن نہ لباس کام آئے گا، نہ شہرت، نہ پوسٹس، نہ فالوورز۔ اس دن صرف وہی نجات پائے گا جس کا دل سچا، نیت پاک اور عمل خالص ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:’’جس دن نہ مال فائدہ دے گا نہ بیٹے، سوائے اس کے جو اللہ کے حضور پاک دل لے کر آئے۔‘‘(سورۃ الشعراء: 88-89)۔
آج ہمیں ایک نیا فیصلہ لینا ہے — ہمیں حقیقت کا انسان بننا ہے، نہ کہ دکھاوے کا۔ ورنہ ہم اس دوڑ میں سب کچھ ہار جائیں گے، سوائے اللہ کی ناراضگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
[email protected]