آمنہ يٰسين ملک
آج کا انسان بظاہر ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور باشعور دکھائی دیتا ہے، مگر اس کی اصل شخصیت سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ظاہری خوبصورتی، سجی سنوری زندگی، اور مہنگی اشیاء سے سجی ہوئی دنیا میں جھانکتے ہوئے، ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہی کامیابی، یہی عزت اور یہی وقار ہے۔ لیکن جب ہم دل کی گہرائی میں اترتے ہیں، تو ایک عجیب سی خالی پن، بے سکونی اور بے معنی دوڑ کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں حقیقت پسندی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے اور دکھاوے کو معیارِ زندگی تصور کیا جاتا ہے۔ انسان اپنے اصل چہرے کو چھپا کر ایک ایسا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔قرآن مجید نے ایسے انسانوں کی تصویر کشی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’وہ اللہ اور اہلِ ایمان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا۔‘‘ (البقرہ: 9-10)یہ آیت صاف ظاہر کرتی ہے کہ دکھاوے کی زندگی اختیار کرنے والا درحقیقت خود فریبی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسے اپنی اصل حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہوتا اور یہی لاشعوری بیماری اس کی روح کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔آجکل کا انسان سچائی سے زیادہ تاثر میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ نیکی بھی کرتا ہے تو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے، وہ عبادت بھی دکھاوے کے لیے کرتا ہے اور علم بھی محض بحث و مباحثہ میں جتانے کے لیے حاصل کرتا ہے۔ دل کا خلوص کہیں کھو گیا ہے۔ زبان پر دعوے ہیں، مگر دل شک و ریا سے بھرا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اللہ کے نزدیک یہ بہت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔‘‘ (الصف: 3)یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کا ظاہر و باطن متصادم ہو جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سراسر سادگی، اخلاص اور حقیقت پسندی کا پیکر ہے۔ آپ نے کبھی بھی شہرت، دولت یا ظاہری چمک کو اپنی زندگی کا معیار نہیں بنایا۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تمہارے چہروں اور مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔اس حدیثِ مبارک میں واضح پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قیمت دل کی صفائی اور عمل کے خلوص کی ہے، نہ کہ ظاہری شان و شوکت کی۔مگر آج کا انسان ہر عمل کو ایک دکھاوے کی شکل میں بدل چکا ہے۔ چاہے وہ شادی ہو یا افطار، صدقہ ہو یا عبادت، ہر چیز کی نمائش ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ سادگی کا دعویٰ بھی سوشل میڈیا کی پوسٹ میں بدل گیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وہ لوگ جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر اور جس کا شیطان ساتھی بن جائے، وہ بہت برا ساتھی ہے۔‘‘ (النساء: 38)۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دکھاوے کا عمل دراصل شیطانی راستہ ہے، جو انسان کو اللہ سے دور اور نفس کے قریب کر دیتا ہے۔
آج کے انسان کی زندگی ایسے دکھاوے میں لپٹی ہوئی ہے جیسے چمکدار کاغذ میں لپٹا ہوا زہر۔ ہمیں سچائی سے زیادہ تاثر پسند ہے اور حقیقت سے زیادہ شہرت۔ ہم جیتے ہیں دوسروں کی آنکھوں کے لیے، ان کی واہ واہ کے لیے، ان کے لائکس، کمنٹس، اور داد کے لیے۔ ہم وہ لباس پہنتے ہیں جو متاثر کرے، وہ بات کرتے ہیں جو واہ واہ کروائے، وہ عمل کرتے ہیں جو مشہور ہو۔ اصل میں ہم نے خود کو کھو دیا ہے۔ خود سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے، روح مردہ ہو چکی ہے اور دل میں وہ روشنی باقی نہیں رہی جو اخلاص اور سچائی سے پیدا ہوتی ہے۔
ایسے لوگ جو دکھاوے کی زندگی جیتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ فرمایا:’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو صرف دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔‘‘(سورۃ الماعون: 4-6)۔یہ آیات صرف نماز تک محدود نہیں بلکہ ہر اس عمل پر لاگو ہوتی ہیں جو محض نمائش کے لیے کیا جائے، چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی۔
ہمارے معاشرے میں دکھاوے کا سب سے بڑا میدان سوشل میڈیا ہے۔ کوئی کھانا کھاتا ہے، فوراً تصویر، کوئی قرآن پڑھتا ہے، فوراً پوسٹم، کوئی نیکی کرتا ہے، ساتھ میں ’’الحمدللہ‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تصویر۔ دل کے اخلاص کو ہم نے لائکس اور شیئرز کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ جو عمل صرف اللہ کے لیے نہ ہو، وہ بے وزن ہے۔
قرآن کہتا ہے:’’جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتے ہیں، ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ یہیں دے دیتے ہیںاور آخرت میں ان کے لیے صرف جہنم ہے۔‘‘ (سورۃ ہود: 15-16)۔یہ ہے انجام ان لوگوں کا جو ہر عمل کو دنیا کی تعریف کے لیے کرتے ہیں، نہ کہ آخرت کے لیے۔
نیکی کا اصل حسن چھپانے میں ہے۔ وہ دعا جو تنہائی میں مانگی جائے، وہ آنسو جو صرف اللہ کے سامنے بہائے جائیں، وہ صدقہ جو ایک ہاتھ دے اور دوسرا جانے بھی نہ — یہی وہ اعمال ہیں جن میں برکت ہے، جن میں روحانیت ہے اور جو دل کو پاک کرتے ہیں۔ مگر آج کے انسان کے لیے’’نظر آنا‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ روحانی صفائی، اخلاص، عاجزی — سب قربان کر دیے گئے ہیں ظاہری شان و شوکت پر۔(جاری)
[email protected]