سہیل بشیر کار،بارہمولہ
حضرت ابوذر غفاری سے رسول اکرم ؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جب مدینہ کی آبادی سلع تک پہنچ جائے تو تم مدینہ چھوڑ دینا اور شام چلے جانا۔مصنف لکھتے ہیں: ’’یہ وہی پالیسی تھی جس پر بعد میں حضرت عمر فاروقؓ نے عمل کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ جیسے نئے شہر آباد کیے، اس پالیسی کو شہری منصوبہ بندی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ جب مدینہ کی آبادی بڑھنے لگی تو آپ ؐ نے کئی منزلہ عمارت بنانے کا مشورہ دیا، اسی طرح آپ نے راستوں کو کشادہ رکھنے کی بھی ہدایت دی، ساتھ ہی صفائی و صحت کے لیے بھی خصوصی توجہ دی گئی،یہ مقالہ پڑھ کر قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ شہری منصوبہ بندی کے لیے جو اقدامات کرنے لازمی ہے وہ کس طرح رسول اللہؐ نے کئے۔آج ہر طرف بے امنی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جگہ امن ہو تاکہ انسانیت کو سکون ملے، اسوہ رسول ؐ سے کس طرح امن پیدا ہو سکتا ہے، کتاب کا نووا مقالہ ’’رسول اکرم ؐ اور امن عالم‘‘ اس کی وضاحت کرتا ہے۔اس مقالہ میں مصنف نے دکھایا ہے کہ کس طرح جزیرہ عرب میں رسول رحمتؐ نے امن قائم کیا حالانکہ آپ کی بعثت کے وقت ہر طرف فساد ہی فساد تھا، وہ کون سے عوامل تھے جن کو بروئے کار لا کر رسول اکرمؐ نے امن قائم کیا، ان نکات کو مصنف اس باب میں بیان کرتے ہیں۔
کتاب کا دسواں مقالہ ’’اسوہ حسنہ اور اسوہ کاملہ‘‘ میں مصنف لکھتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کا اسوۂ انسانیت کے لیے جہاں حسنہ ہے وہی کاملہ بھی ہے،لکھتے ہیں: ’’یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اسوہ محمدی جسے اللہ نے مسلمانوں کے لیے نمونہ اور ماڈل قرار دیا ہے ہر لحاظ سے کامل ہے۔ اگر اسوہ کاملہ نہ ہو تو حسنہ بھی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ ناقص چیز حسین اور بہترین نہیں ہوتی ۔ جمال ہمیشہ کمال کا تقاضا کرتا ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی نے رسول پاکؐ کے اسوۂ کاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آئیڈیل لائف اور نمونہ تقلید بننے کے لیے جو حیات انسانی منتخب کی جائے ضرور ہے کہ اس کی سیرت کے موجودہ نقشہ میں یہ چار باتیں پائی جائیں یعنی تاریخیت ، جامعیت، کاملیت اور عملیت ۔ میرا یہ مقصد نہیں کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں ان کے عہد اور زمانہ میں ان خصوصیات سے خالی تھیں بلکہ یہ مقصد ہے کہ ان کی سیرتیں جو ان کے بعد انسانوں تک پہنچیںیا جو آج موجود ہیں وہ ان خصوصیات سے خالی ہیں اور ایسا ہونا مصلحت الٰہی کے مطابق تھا، تا کہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیاء محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ تک محفوظ رہنے کی ضرورت نہ تھی ، صرف حضرت محمد ؐ تمام دنیا کی قوموں کے لیے اور قیامت تک کے لئے نمونہ مل اور قابل تقید بناکر بھیجے گئے تھے۔ اس لئے آپؐ کی سیرت کو ہر حیثیت سے مکمل دائی اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی اور یہی ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل ہے ۔‘‘ (صفحہ 161)مولانا وحید الدین خان نے کہا ہے کہ رسول اکرمؐ کا اسوہ حسنہ ہے کاملہ نہیں، اس کا بھر پور جواب اس مقالہ میں دیا گیا۔اس مقالہ میں مصنف نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے اس خیال کہ دنیا کے لیے اب حضرت مسیح کا ماڈل زیادہ قابل انطباق ہے کا بھی خوبصورتی سے جواب دیا ہے، مصنف نے دکھایا ہے کہ دنیا کے لیے اب جو ماڈل درکار ہے وہ حضرت محمد ؐ کا لایا ہوا ماڈل ہے نہ کہ مسیح ماڈل، اس کی وجوہات بھی مقالہ میں مصنف بیان کرتے ہیں۔
گیارہویں مقالہ ’’راہ نجات رسول اکرمؐ پر ایمان ہے‘‘ میں مصنف نے اس خیال کی دلائل سے انکار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رسالت محمدیؐ پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کو نجات کے لئے کافی سمجھا گیا ہے،جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:” جو شخص محمد ؐ کے آخری رسول ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو پھر بھی غیر امت کے صالحین کی نجات کا قائل ہو، اس کا یہ خیال گمراہ کن اور فتنہ انگیز ہے، اس کی اصلاح از حد ضروری ہے ایسے لوگ یا تو یہودیوں اور عیسائیوں کے عسکری اور ثقافتی غلبہ کو دیکھ کر مرعوب ہوگئےہیں یا قرآن کی آیات کو سمجھنے میں ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔‘‘(صفحہ 184)
2006ء میں ڈنمارک میں رسول اکرم ؐ کے توہین آمیز کارٹون شائع ہوئے ، مغرب کی یہ جارحیت کچھ اور ملکوں میں بھی جاری رہی ۔ایسے میں بارہویں مقالہ ’’رسول اکرمؐ اور مغربی جارحیت ‘‘میں مصنف نے ان واقعات کے مضمرات پر روشنی ڈالی ہے ساتھ ہی مصنف نے رسول اکرم ؐ کی سیرت کے چند اہم گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔
تیرہواں مقالہ ’’مصطفی نایاب ارزاں بولہب‘‘ میں مصنف نے مغرب کے اس رویہ پر تنقید کی ہے جس کے تحت انہوں نے شاتم رسول بدنام زمانہ سلمان رشدی کو نائٹ ہڈ کا ایوارڈ دیا، مصنف نے اس سلسلے میں مغرب کے دوہرے معیار کو بیان کیا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مغرب توہین رسالت کا کام پہلے خود کرتا تھا اب یہ کام نام نہاد مسلمان گھروں میں پیدا ہونے والوں سے لیتا ہے، اس مضمون کو پڑھ کر جہاں معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے وہیں ایمان میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔یہ مضمون جذبہ ایمانی سے لکھا گیا ہے، اس ایمان افروز مضمون سے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔کتاب کا آخری مقالہ’’ ‘محبت رسول اللہؐ کی ‘‘ہے۔اس میں مصنف نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑا ہے اور کہا ہے کہ ’’اگر ذات محمدی سے ہمیں محبت ہے تو محبت میں تڑپنا، اس کے مطالبے پورے کرنا اس کے لیے قربانی دینا ہمیں کیوں نہیں آتا؟ محبوب کی کشش تو انسان کو پہاڑکو تراشنے اور سمندر کو کھنگالنے پر آمادہ کرتی ہے، مگر ہماری محبت اپنے تقاضے پورے کیوں نہیں کرتی؟ ہماری محبت اور ہماری حالت میں فاصلہ کیوں نظر آتا ہے؟‘‘
کتاب کی زبان عمدہ ہے، مختلف مقالات کو الگ الگ وقت پر لکھا گیا ہے اس کے باوجود تقرار نہیں ملتی، سیرت کے باب میں یہ ایک اہم اضافہ ہے،یہ فکرانگیز کتاب ہدایت پبلشر اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی نے عمدہ طباعت پر شائع کی ہے۔216 صفحات کی کتاب کی قیمت 250روپے مناسب ہے،کتاب واٹس اپ نمبر 09891051676 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
[email protected]