ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پندر ہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کو نوجوان کہا جاتا ہے ۔ اسی میں بچپن اور لڑکپن کا دور adolescents age بھی شامل ہیں ۔ World population statistics کے ایک بیان کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں پچاس فیصدآبادی پچیس سال سے نیچے کی عمر پرمشتمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ مذکورہ بالا تعریف کی رو سے جب ہندوستان کا تذکرہ کیا جائے تو ایک سروے کے مطابق ہندوستان کو نوجوانوں کاملک (country of the youth )کا درجہ حاصل ہے ۔
قوتو ں ،صلاحیتوں ،حوصلوں ، امنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی و ناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزلی اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ، معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا،وہ سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی و نشریاتی میدان غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا رول نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہاریہ ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا بر پا کردہ انقلاب غرض کہ ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے ۔ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعہ آئی ہے ۔ اور زما نہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انہی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔
اب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور رول کے بارے میں کیا کہتا ہے قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا رول اس طرح سے بیان کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میںترقی بخشی ‘‘۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے : یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ظالم حکمراں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا ۔(سورہ الکھف :۱۳)
اللہ تعالی ٰ نے ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالمگیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے :ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریںگے اگر ہم ایسا کریںتو بالکل بے جا بات کریں گے ۔ (سورہ الکھف :۱۴)
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانہ میں جو رول اد اکیا وہ تمام نوجوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے ۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسی کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنہوں نے کٹھن حالات میںحضرت موسی کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :’’ موسیٰ ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا ، فرعون کے ڈر سے اور خود پنی قوم کے سربراہ لوگوں ک ڈر سے کہ فرعون ن کو عذاب میں مبتلا کرے گا ‘‘۔ِ (یونس :۸۳) اس آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جو بہت ہی جامع اور معنی خیز بھی ہے ۔سید مودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پر مغز انداز میں اس طرح کی ہے’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر خطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ ایسے حق کاساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کو خطرات سے پر نظر آرہاتھا ۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی ) احادیث رسول میں بھی نوجوانوں کے رول اور ان کے لئے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروہی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طر سے ہر فرد کے لئے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لئے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا ۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے فر مایا : قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ عمر کن کاموں میں گنوائی ۔ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی ۔۳۔ مال کہاں سے کمایا ۴۔ اور کہاں خرچ کیا ۔ ۵۔ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا ۔
اس حدیث مبارکہ میں چارسوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا اس میں جوانی کادور بھی شامل ہے مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرشروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے فرمایا ہے ع
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری
عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہ ؓنے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں اسامہ بن زید نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی یہی وہ عمر ہے جس میں خالد بن ولید ؓنے بار گاہ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دور شباب ہی میں حضرت علی ؓ حضرت مصعب بن عمیرؓ ، عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ، ابن عباس ،ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاص ؓ نے اللہ کے رسول ؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا، اسی عمر میں ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ،علامہ ابن خلدون ؒاور امام غزالی ؒجیسے مجددین بحرالعلوم کی گہرائیوں میں اُترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبیؒ، طارق بن زیادؒ اور محمد بن قاسمؒ نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا، اسی عمر میں حسن البنا شہید ؒنے مصر کی سر زمین پر جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں ،کو دعوت الی اللہ کے لئے مسکن بنایا ۔ مولاناابولکلام آزاد ؒنے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی ؒنے تئیس سال کی عمر میں ہی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط ہمیوں کا ازالہ کیا جن میں اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے ۔ اللہ کے رسول ؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے ، کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دئے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؒ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ایک جوانی کوبڑھاپے سے پہلے ۲۔ صحت کوبیماری سے پہلے ۳۔ خوشحالی کو ناداری سے پہلے ۴۔ فراغت کومشغولیت سے پہلے ۵۔ زندگی کوموت سے پہلے (ترمذی )ذیل میں ہم ان چند مسائل کا تذکرہ کرینگے جن کاسامنا ہر مسلم نوجوان کر رہا ہے
۱۔ مقصد زندگی اور اسلام :۔
ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب (Have you Discovered its Real Beauty)میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے انہوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔ عصرجدید میںجب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے مقصد زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ’’Eat Drink and be Happy ‘‘او ر’’بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ (خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے) جیسے فرسودہ اور پر فریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد زندگی کے حوالے سے واضح موقف ہے زندگی کی غرض و غایت کے متعلق قرآن وحدیث میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے قرآن میں ایک جگہ انسان کو یہ ہدایت دی گئی میں زمین پرخلیفہ بناناچاہتا ہوں تو د وسر ی جگہ فرمایا کہ میں نے جن وانسان کو نہیں مگر اپنی عبادت کے واسطے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میںزندگی کا مقصد ومدعا بیان کیا ہے ۔ایک جگہ اگر حسن عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے ، تودوسری جگہ مقصد اور کامیاب زندگی کو تزکیہ نفس پر موقوف ٹھہرایا گیا ہے ۔زندگی کی غرض و غایت کے متعلق احادیث سے بھی خوب رہنمائی ملتی ہے اللہ کے رسول ؐ کا رشاد ہے : دنیا بہت مٹھا س والی اور سر سبز و شاداب ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہیں خلافت کا منصب عطا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔(مسلم کتاب الذکر ) اللہ کے رسول ؐ نے یہ بھی فر مایا عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کیا ۔ ( ترمذی )
۲۔ وحی الہٰی سے دوری اور نوجوان :
اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ الہٰی تعلیمات سے نابلد اور دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔نوجوا ن طبقہ قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے، اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجز کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے ۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لئے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے ، جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لئے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق و باطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلا ب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔
۳۔ کیر ئیر ازم اور نوجوان :۔
عصر حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ ,(proffession)مقام(placement) اور پیسہ و سرمایہ(payment) بٹورنے کاذ ریعہ بن گیا ہے ۔ہر نوجوان انہی تین چیزوں (Three Ps)کے پیچھے بھاگتا ہے آج سائنس ٹیکو نولوجی اور دوسری طرف علمی انفجارر کا دور مسابقت اور ایک دوسرے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیںبائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیتا ہے ۔
سماج میں ر ہ رہے دوسرے افراد سے ہی کیا وہ تو اپنے بغل میں رہ رہے ہمسایہ سے بھی بے گانہ ہے کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پو عمل کرتا ہے’’ اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا ‘‘ جس کا مطلب ہے مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لئے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے نا آشنا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد(Degress)کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لئے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدر میں معلومات ہوتی ہیں۔ لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزراتا ہے جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ اسلام کیر ئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بناے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے ۔اسلام توقاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور ااچھے طریقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے ۔ اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے کہ احسان ’’حسن عمل‘‘( Excelency ) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے لیکن ہاں اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منھ پھیر کر زندگی گزارے اندھی کیر ئیر پرستی(Blind carrierism) ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
رابطہ پی، ایچ ۔ڈی ۔اسکالر ،شعبہ اسلامیات،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد