ڈاکٹر محمد اکرم سلطان
دور جدید کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں مصنوعی ذہانت ایک ایسی تیکنیکی تخلیق ہے، جس میں کمپیوٹر یا مشین کے ذریعے انسانی ذہانت جیسی صلاحیت پیدا کر کے طب کے شعبۂ تحقیق اور دیگر شعبوں میں ترقی کر کے آگے بڑھا جارہا ہے۔ نئی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی مدد سے روایتی طبی کلچر بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور نتائج جلد ہی طب، حیوانیات، ادویات اور دیگر طبی شعبوں میں نمایاں ہورہے ہیں۔مصنوعی ذہانت کا استعمال طبی دنیا میں کارآمد ثابت ہو رہا ہے جیسے کہ اس کے استعمال سے شعبہ ریڈیولوجی، پیتھالوجی، انڈوسکوپی اور سرجری میں مرض کی تشخیص کو اعلی درجے اور ممکنہ حد تک کم انسانی ضرورت کے ساتھ فروغ پارہا ہے اور اس منفرد تخلیق کو انسانوں اور ہر قسم کے جانوروں کی تحقیق کے ساتھ ادویات کی جدید اور کارآمد تیاری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے سال 2024 کو مصنوعی ذہانت کا سال قرار دیا ہے جو کہ یقینا ًروایتی کمپیوٹر، سپر کمپیوٹر اور جدید موبائل فونز کے بعد ایک جدید پیش رفت ہے ۔اےآئی اور تیز رفتار کوانٹم کمپیوٹر کے ملاپ سے طب اور ادویات کے شعبے میں مزید کئی انقلابی اقدامات دنیا کو اپنی گرفت میں لیتے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح طبی تشخیص کے دوسرے اور روایتی طریقوں کے مقابلے میں وقت کی بچت اور نتیجہ خیزی میں اضافے کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے پیچیدہ جہتوں کی افادیت اور تشخیصی صلاحیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ٹی بی، بریسٹ کینسر اور کینسر کی مزید اقسام کے لیے مصنوعی ذہانت سے ایکسرے میں مختلف دھبوں کی زیادہ گہرائی سے تحقیق و تشخیص ممکن ہورہی ہےاور پیتھالوجی، سرطان اور اس کی مختلف اقسام کی خلیاتی تبدیلیاں دیکھے جانے والے بہتر خوردو بینی عکسی جائزے سے آنتوں، گردوں، پھیپڑوں اور دماغ کے دائمی اور پیچیدہ امراض میں کوانٹم کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے اعلیٰ پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔طبی تشخیص کی طرح مصنوعی ذہانت کا طبی علاج و جراحی میں بھی بہت عمدہ مستقبل نظر آتا ہے۔ اسی طرح تھری ڈی پرنٹنگ کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے بروئے کار لا کے سی ٹی اسکین اور ایم ار آئی کے ڈیٹا سے ڈینٹل آرتھوپیڈک، وریدی (ویسکیولر) اسپائن (ریڑھ کی ہڈی) اور تولیدی اعضا کی سرجری کے ساتھ ساتھ کینسر کی سرجری میں مزید رہنمائی حاصل کی جا سکے گی جب کہ آرگینک بایو انجینئرنگ سے تیکنیکی طور پر کار آمد اعضاء جیسے والز کی تبدیلی وغیرہ میں استعمال کیاجا سکے گا۔
میڈیکل علاج سے متعلق دوائیاں بنانا اور فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایک قدیم فن ہے۔ ہندوستانی و چینی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں روایتی طبی علاج سے اب نیوٹراسیوٹیکل، ہومیوپیتھک، ایلوپیتھک اور نئی قسم کی ادویات کی تیاری کے عمل میں اگر مصنوعی ذہانت کا اضافہ کیا جاتا ہے تو ادھوری رہ جانے والی تحقیقات، کلینیکل ٹرائلز، دوائیوں کی مارکیٹنگ اور دوائیوں کے مضر اثرات کے بارے میں کم وقت اور مکمل مہارت کی پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔اگر مختلف ادوار میں ترقی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پہلے بھانپ کا انقلاب، پھر برقی انقلاب اور اب دور حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنے عروج کی نئی بلندیوں کو تیزی سے چھوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت سامنے آئی ہے جو کہ اب سائنٹیفک ٹیکنالوجی کے ملاپ سے ایک منفرد انقلابی دور کا آغاز ہے ۔اس منفرد سائنسی ترقی کو اگر طبی تحقیق اور تعلیم کے ساتھ ضم کر دیا جائے تو زر مبادلہ کمانے کا بڑا موقع ہے اور دنیا میں ہمارے ملک کو ایک نئی حیثیت و بلندی حاصل ہو سکتی ہے۔ بھارت میں میڈیکل کی تعلیم کو امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج کے دور میں بھارتی ڈاکٹرز اورپیرامیڈکس بہت بڑی اور نمایاں تعداد میں امریکا کا میڈیکل اور ہیلتھ سسٹم سنبھالی ہوئے ہیں ، یہ نہیں کہ پاکستانی میڈیکل ماہرین اور دوسرا پیرامیڈکس عملہ وہاں موجود نہیں لیکن امریکا، انگلینڈ، گلف اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھارتی طبی ماہرین پورے ہیلتھ سسٹم پر چھا رہے ہیں، اسی طرح علاج اور سرجری کے لیے بھی امریکا، انگلینڈ، سنگاپور اور دبئی کے بعد اب بھارت کا ہی نمبر آتا ہے۔ اس کی وجہ بھارت کا میڈیکل اور ہیلتھ کے شعبے میں تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں آنے والا کم خرچ اور SOPs کے ساتھ ہونے والا بہترین علاج معالجہ اور ٹرانسپلانٹ ہےاور تیزی سے سائنٹیفک ترقی بالخصوص سافٹ ویئر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ڈیجیٹل انٹیلیجنس اور مزید یہ کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، کوانٹم کمپیوٹر کے امتزاج سے ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔
یاد رہے کہ کوانٹم کمپیوٹر بہت تیز رفتاری سے کئی سالوں کا کام منٹوں میں کر سکتا ہے جو کہ ایک سوپر کمپیوٹر کو انجام دینے میں کئی سال لگ جائیں اور اگر اس میں مصنوعی ذہانت کا تڑکا لگے تو سالوں کا پیچیدہ کام سائنٹیفک کی مدد سے منٹوں میں کیا جا سکتا ہے۔عنقریب ہی درمیانی درجے کےکوانٹم کمپیوٹرز تجارتی طور پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔ سو اگر عصری ذریعہ ٔتعلیم و نصاب کے ساتھ طبی تعلیم و پیشورانہ صلاحیتوں میں ابتدائی مراحل سے ہی اس سائنٹیفک ٹیکنالوجی کو استوار نہ کیا گیا تو ہمارے غیر تربیت یافتہ اور فرسودہ کتابی و تعلیمی افرادی قوت کا کوئی طلبگار نہ ہوگا اور اگر ہم دور حاضر کی ضرورت کے مطابق جدید ٹیکنالوجی بالخصوص آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی تربیت دیں تو ایک اچھا زر مبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ نئے انقلابی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔جس کے لئےضروری ہے کہ شعبہ تعلیم اورادویات سازی کے ماہرین کو انٹرنیشنل تربیت ومشاہدہ کے تجربے سے آراستہ کر کے ہر صوبے میں تعینات کیا جائےاور ان کی صلاحیتوں کو آبادی کے نوجوانوں اور طلبا تک پہنچایا جاسکے ۔اگرملکی ترجیحات میں تعلیم بالخصوص دور حاضر کی ضرورت مصنوعی ذہانت کے ساتھ اول نمبر پر رکھی جائے تو یہ مستقبل کے لیے ایک بہترین نوید ہے۔ حقیقی طبی ڈیٹا جسے ریل ٹائم ڈیٹا کہا جاتا ہے۔ اگر اس کو نادرہ کے ساتھ ضم کر دیا جائے تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے آنے والی بیماریوں اور وباؤں کی قبل از وقت پیش گوئی کی جا سکتی ہے، جس سے بروقت تدابیر اختیار کر کے مرض کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔