Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

عصرِ حاضر میں عیدالاضحی پر قربانی کی معنویت سرحدِ ادراک

Mir Ajaz
Last updated: June 6, 2025 11:05 pm
Mir Ajaz
Share
12 Min Read
SHARE
سید شکیل قلندر
عیدالاضحی جسے ’’عید ِ قربانی‘‘ کے نام سے بھی جاناجاتا ہے، اسلام کے دو مقدس ترین تقاریب میں سے ایک ہے۔ یہ قرآن کریم کے بیانات اور حضرت ابراہیم ؑ کی سنت سے  جڑا ہوا ہے اور اس عظیم واقعے کی یاد دلاتا ہے جس میں ایک بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی سب سے عزیز شے قربان کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو قربان کرنے کی تیاری اور بیٹے کی اس خدائی حکم کی رضا مندی سے قبولیت، مکمل اطاعت اور اللہ کی رضا پر ایمان کی عظیم مثال ہے۔
آج ہم عیدالاضحی مناتے ہیں تو ہمیں رسمیہ طور پر نہیں بلکہ اس کے اصل پیغام جیسے ایمان، قربانی اور مکمل تسلیم و رضا پر غور کرنا چاہیے۔ قرآن اس واقعے کو محض خون بہانے کا حکم نہیں بلکہ ایک اخلاص اور اطاعت کا آزمائشی لمحہ قرار دیتا ہے:’’بیشک تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ بیشک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک عظیم قربانی کے ذریعے اس کا فدیہ کردیا۔‘‘ (سورہ الصافات 37: 105-107)۔یہ خدائی تبدیلی جہاں حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ایک دنبہ قربان ہوا، اسلام میں قربانی کے عمل کی بنیاد بنی، جسے دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس عمل کے پس منظر میں ایک گہرا پیغام چھپا ہے۔ نفس، مال اور دنیاوی وابستگیوں کو اللہ کی رضا، اطاعت اور معاشرتی فلاح کے لیے چھوڑ دینا۔قرآن کریم واضح طور پر کہتا ہے ، ’’ہرگزنہ اللہ کوان (قربانیوں)کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔ ‘‘ (سورہ الحج 22:37)یہ آیت قربانی کی اصل روح کو تقویٰ اور خوفِ خدا میں مرکوز کرتی ہے نہ کہ ذبح کے حجم میں۔ یہ عمل دراصل اخلاص، عاجزی اور اللہ کی رضا کے لیے ذاتی مال و اسباب کو چھوڑنے کی علامت ہے۔لیکن آج مسلم دنیا کے کئی علاقوں میں یہ عبادت اخلاقی اور روحانی جوہر پر غالب آ چکی ہے۔ قربانی کے جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو اکثر ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے، ایسے وقت میں سوال اٹھاتی ہے جب دنیا بھر میں مسلمان بحران، غربت، افلاس، بے گھری اور تنگ دستی کا شکار ہے۔
جموں و کشمیر، جہاں سنی مسلمان اکثریت میں ہیں، ایک ایسا خطہ ہے جہاں قربانی کے طریقۂ کار اور اس کے پیمانے پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ماضی میں کشمیر میں عیدالاضحیٰ سادگی، خلوص اور خاموش وقار کے ساتھ منائی جاتی تھی۔ دن کا آغاز غسل کرنے، نئے یا صاف کپڑے پہننے اور عید گاہ کی جانب نمازِ عید کی ادائیگی کے لئے روانگی سے ہوتا۔ اس کے بعد ہمسایوں اور رشتہ داروں سے محبت بھری ملاقاتیں ہوتیں اور دعاؤں کا تبادلہ کیا جاتا۔ صرف چند خوشحال خاندان ہی قربانی کا جانور خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ اکثر گھروں کے لئےگوشت جو کسی پڑوسی یا رشتہ دار کی طرف سے محبت سے دیا گیا ایک چھوٹا سا حصہ ،ایک قیمتی نعمت کی حیثیت رکھتا۔ گوشت کا ذائقہ عموماً صرف عید، شادی یا گاہے بہ گاہے ہی نصیب ہوتا تھا۔آج صورت حال بدل چکی ہے۔ اب بیشتر گھروں میں ہفتے میں کئی بار گوشت پکایا جاتا ہے اور خوشحال طبقات میں تو یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یہ تبدیلی ہمیں قربانی کے انداز پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کرتی ہےکہ قربانی کی مقدار نہیں بلکہ نیت، ہمدردی اور بامعنی تقسیم اہم ہے۔ موجودہ معاشی و سماجی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بحیثیت ایک ادنیٰ سماجی کارکن اور مسلکِ حنفی کے پیروکار، میری یہ گزارش ہے کہ ہم ایک گھر میں صرف ایک چھوٹے جانور کی قربانی پر غور و فکرکریں۔ یہ طرزِ عمل تمام مکاتبِ فکر (سوائے مسلکِ حنفی) کے نزدیک نہ صرف جائز بلکہ بعض کے نزدیک پسندیدہ بھی ہےاور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔ اگرچہ مسلکِ حنفی میں قربانی کو واجب قرار دے کر ہر ذی استطاعت بالغ مسلمان پر فرداً فرداً لازم کیا گیا ہے، تاہم دیگر مسالک اس فریضہ کو سنتِ مؤکدہ یا مستحب کا درجہ دیتے ہوئے قربانی کے دائرے کو محدود کرنے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔سری نگر جیسے شہروں میں کثیر گھرانے اب نصاب کی حد کو پہنچ چکے ہیں، قربانی کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہےجو اکثر نہ ضرورت کے مطابق ہوتی ہے نہ سنبھالی جا سکتی ہے۔ کئی گھروں خصوصاً نئے شادی شدہ جوڑوں والے گھروں کے لیے یہ گوشت سنبھالنا اور استعمال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ علمائے دین اس بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں کہ قربانی کا گوشت کتنے دنوں تک کھانا مسنون ہے مگر اصل پیغام یہی ہے کہ قربانی ہمدردی اور تقسیم کی علامت ہے نہ کہ ذاتی تسکین یا اسراف کی۔
2014 میں جب کشمیر میں تباہ کن سیلاب آیا، ہزاروں لوگ بےگھر ہوئے اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا، تو کچھ سماجی تنظیموں نے مفتیانِ کرام اور علمائے دین سے رجوع کرکے فتویٰ کی رو سے جاننا چاہا کہ کیا قربانی ترک کر کے اس کی رقم متاثرین کی امداد میں دی جا سکتی ہے؟ مکمل ترک کو تو منظور نہ کیا گیا مگر ایک متوازن فتویٰ یا مشورہ سامنے آیا۔ حنفی علماء کرام نے بھی مشورہ دیا کہ ہر گھر ایک چھوٹا جانور قربان کرے یا سات گھرانے مل کر بڑا جانور،تو باقی رقم سیلاب زدگان کی مدد میں دی جاسکتی ہے۔ یہ ایک نادر لیکن مؤثر اجتہادی مثال تھی، جس میں دینی رہنمائی نے اس وقت کے حالات کے مطابق تدبر اور بصیرت سے کام لیا۔اسی طرح عالمی وبا کووڈ19کے دوران حیدرآباد کی جامعہ نظامیہ نے ایک عارضی فتویٰ دیا کہ قربانی کی بجائے مساوی رقم غریبوں کو دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ موقف ہندوستان کے دوسرے ایسے اداروں نے وسیع طور پر قبول نہ کیا، لیکن اس نے ایک گہری بحث چھیڑ دی کہ غیر معمولی حالات میں قربانی کا مقصد کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔ایسے لمحات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ جب زندگی، عزت اور بقاء داؤ پر ہو تو اسلامی قانون میں وہ لچک اور دوراندیشی موجود ہے جو اپنی اصل روح کو محفوظ رکھتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھا لی جاسکتی ہے۔
      کشمیر میں بھی ایسی مثال موجود ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب بے شمار لوگ لاپتہ ہوئے اور کثیر تعداد میں جوان خواتین’’نیم بیوہ‘‘ کہلائیں تو مختلف مسالک کے علماء نے مل کر ایک انقلابی اجتہاد کیا۔ انہوں نے حنفی فقہ کے بجائے مالکی اور جعفری مکاتبِ فکر سے رہنمائی لی اور چار سال کی غیر حاضری کے بعد نکاح ثانی کی اجازت دی ،حالانکہ حنفی فقہ میں یہ مدت نوے سال ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف اسلام کی رحمت و لچک کا مظہر تھا بلکہ انسانی دُکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جراتمندانہ فقہی قدم بھی تھا۔جب دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان ظلم، جنگ، غربت اور بےگھری کا سامنا کر رہے ہوں تو لازم ہے کہ ہم اپنے دینی اعمال کو شعور، رحم دلی اور سماجی ذمے داری کے ساتھ نبھائیں۔ اسلامی فقہ میں وہ وسعت ہے جو خیر اور مصلحت کی رہنمائی میں اجتہاد کی راہیں کھولتی ہے۔ہمارے اپنے خطے میں، ہزاروں افراد دائمی بیماریوں، غربت اور غفلت کا شکار ہیں۔ اگر قربانی کی رقم کا کچھ حصہ ایک جانور کی قیمت کے برابران ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے تو یہ ان کے لیے دوا، صاف پانی، چھت اور عزت کا وسیلہ بن سکتا ہے۔یہ ہرگزبھی قربانی کو ترک کرنے کی دعوت نہیں بلکہ اسے اس کی اصل روح یعنی اللہ کی خوشنودی اور انسانیت کی فلاح سے جوڑنے کی یاد دہانی ہے۔ ایک گھر، ایک جانور کا ماڈل اختیار کرنا روایات سے انحراف نہیں بلکہ ایک فکری مصالحت ہے جو تمام بڑے مکاتبِ فکر (سوائے حنفی) میں جائز بھی ہے۔ اسلامی قانون میں وہ اخلاقی اور قانونی وسعت موجود ہے جو حالات کے مطابق ایسے فیصلوں کی گنجائش رکھتی ہے اور یہی لچک کشمیری’’نیم بیواؤں‘‘ کے معاملے میں بھی نظر آئی تھی۔
اب وقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مفتیانِ کرام، فقہائےعظام اور علمائے حق جو وادی بھر میں عزت و اعتماد کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، ایک بار پھر مل بیٹھ کر اور ماضی کی اجتہادی مثالوں سے سبق لیتے ہوئے ایسی ایک مشترکہ رہنمائی جاری کریں، جس میں ایک گھر۔ ایک قربانی کے اصول کو فروغ دینا مقصود ہو اور بچی ہوئی رقم خیرات، امداد، تعلیم و تربیت اور معاشرتی بہبودی پر خرچ کرنے کا مشورہ جاری کریں۔یہ اقدام قربانی کے عمل کو کمزور نہیں کرے گا بلکہ اس کے اصل مفہوم کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ یہ دکھائے گا کہ ہماری قربانی جانوروں کی تعداد میں نہیں بلکہ اس جذبے میں ہے کہ ہم اپنی زائد خواہشات کو اعلیٰ مقصد کے لیے چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔
 عیدالاضحیٰ گوشت کا نہیں، معنیٰ کا دن ہے۔ یہ ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی اخلاص، حضرت اسماعیل ؑ کی تسلیم و رضا اور اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت کی یاد دلاتی ہے جس نے قربانی سے پہلے نیت کو قبول فرمایا۔آئیے ہم اس عظیم ورثے کو جانوروں کی تعداد بڑھا کر نہیں بلکہ اپنی ہمدردی اور خلوص کو گہرا کر کے خراج پیش کریں۔ ہماری قربانیاں محض رسم تک محدود نہ رہیںبلکہ عمل، سخاوت اور ان لوگوں کے ساتھ یکجہتی تک پہنچیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہو۔آئیے! اس عیدالاضحیٰ کو ایک نئی جہت عطا کریں۔ قربانی کی ظاہری وسعت سے نکل کر اخلاص کی باطنی گہرائی کی طرف،رسم و رواج کی پیروی سے آگے بڑھ کر ضمیر کی بیداری کی طرف اور محض عادت کے تقاضے سے ہٹ کر سچی، دلی اور با شعور قربانی کی طرف۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی، ہماری نیتوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے کی گئی ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین
عمرعبداللہ کی لوگوں کو عید الضحیٰ کی مبارکباد دی
تازہ ترین
راجوری میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کیلئے لوگ امڈ پڑے قربانی کے جانوروں کی مانگ میں اضافہ، قیمتوں میں بھی تیزی، منڈی میں گہما گہمی عروج پر
پیر پنچال
ڈی سی اور ایس ایس پی راجوری نے مرکزی عیدگاہ کا دورہ کیا
پیر پنچال

Related

مضامین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ملت حنیف تجلیات ادراک

June 6, 2025
مضامین

رسم قربانی باقی ہے روح قربانی تلاش کر

June 6, 2025
مضامین

حج بیت اللہ۔ خدائے لم یزل سے اُلفت کا مظاہرہ فکرو فہم

June 6, 2025
مضامین

سنت ابراہیمی کا پیغام ! غور وفکر

June 6, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?