اس روئے زمین پر بے شمار فتنوں نے جنم لیا، لیکن ان تمام فتنوں میں عصبیت اور تعصب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عصبیت کو فتنوں کی ماں سے بھی تعبیر کیاجاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایساخطرناک سماجی مرض ہے جو انسانیت کو کھوکھلا کردیتا ہے اورجب یہ مرض بڑھتا اور پھیلتا ہے تو انسانوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے مثبت اور منفی جذبات اور احساسات سے نواز رکھا ہے۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔جس کا اثر براہ راست معاشرہ پر بھی پڑتا ہے۔ آپسی محبت و الفت سے معاشرے مثالی بنتے ہیں، قومیں ترقی کرتی ہیں اور باہمی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے،جبکہ انتشار، نفرت انگیزی، تکبر وغرور، انانیت، قومیت، علاقائیت، لسانیت، تفرقہ بازی ایسی چیزیں ہیں جن سے معاشرہ اس طرح بکھر جاتا ہے جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی۔ افراد ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن جاتےہیں، رشتہ دار، عزیز واقارب، گھر وخاندان کے درمیان نفرت جگہ لیتی ہے۔اگر آج ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، معاشرے پر نظر دوڑائیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے، وہ عصبیت اور تعصب ہے۔ جذبۂ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے،جو دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ جیسے کہ محبت و الفت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے ویسے ہی نفرت، عداوت اور تعصب انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔تعصب کے باعث انسان افراد سے تعلق میں شدت پسند ہوجاتا ہے، افکار کے حوالے سے انحراف کی روش اپنا لیتا ہے، روا داری، افہام و تفہیم اور مختلف فکر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتاہے۔اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہےکہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔پھر جب اس روئے زمین پر اسلام کی کرنیں پڑنی شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اسلام نے جاہلیت کی عصبیت وتنگ نظری کے خاتمہ پر توجہ دی اور اس کی جگہ دینی ومذہبی اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھایا،اخوت و مودت کو ایک مرکز پر مجتمع ہونے اور انسانی رابطے کا محور بننے کا ذریعہ قرار دیا۔ بڑوں ،چھوٹوں، غریبوں ومالداروں، عرب وعجم، کالے گورے، قریب وبعید، رشتہ دار و اجنبی ،علاقائی وبیرونی کی تفریق اور طبقاتی امتیاز کو ختم کرڈالا۔ گویا اسلام نے انسان کے لئےپیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے اورانسانیت کو حیوانیت، درندگی، ظلم واستبداد، جبر ومشقت، تعصب وعصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ جینے کا منظم نظام عطا کیا، جس کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی، احکامات کی نافرمانی اوراسوۂ رسولؐ سے بغاوت کی اور تعصب اور عصبیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو ہمیں تباہی کی طرف لے گیا،جس کے نتیجے میں آج ہم دنیا میں ذلت وعبرت کا نشانہ ٹھہرتے اور ٹھہراتے جارہے ہیں۔چنانچہ یہ بات بالکل عیاں ہےکہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے، جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی، جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑکر محکوم بنائے گئے، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی۔ اسکے باوجود ہم صوبائیت، علاقائیت و لسانیات کی لڑائی لڑنے میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کررہے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور مشرق ومغرب، شمال وجنوب کی باتیں کرتے گھوم رہے ہیں۔ جبکہ اسلام کا اس برق رفتاری سے ساری دنیا میں پھیلنا اسی لئے ممکن ہوسکا کہ اس نے رنگ ونسل اور ہر طرح کی عصبیت وامتیاز کا پہلے خاتمہ کیا اورپھر اتحاد و اتفاق سے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا کر ایک مثالی تاریخ رقم کی، لیکن افسوس صد افسوس کہ آج اسی اتحاد و اتفاق کو بعض ناداں لوگ علاقائی، لسانی اور رنگ ونسل کی عصبیت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں،جسکا کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔