موسم جو بھی رہا ہو ۔ جاڑا ، برسات ، ہوا ، طوفان یا پھر لاوا اُگلتی ہوئی گرمیاں ، ہم اُس بزرگ خاتون کو اکثر دیکھتے تھے ، بلکہ بلاناغہ دیکھتے تھے ، کیونکہ ہمارے اسکول کا راستہ ان کے گھر کی بغل سے گُزر کرجاتا تھا ۔ سو اس گزُر گاہ سے گُزرنا ہی پڑتا تھا ۔ مستقل آوا جاہی تھی اور روز کا آناجانا بھی ۔ طِفلِ مکتب ہی سہی ، توجہ اِس بُزرگ خاتون کی طرف مرکوز ہو ہی جاتی تھی ۔ کیونکر نہ ہوتی؟ وہ توجہ طلب تھی اور خاصی غور طلب بھی ۔ کوئی بھی اس کی حرکات و سکنات کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔ پھر ہم تو بچے تھے ۔ کم سن اور نافہم ۔ کچھ زیادہ سمجھ نہیں پا رہے تھے ، مگر چند لمحے اسے دُور سے دیکھنے کا من تو کرتا ہی تھا ، حالانکہ ڈرتے بھی تھے کہ کہیں یہ خاتون پتھر وغیرہ پھینک نہ دے ، مگر چھوٹے من اور دماغ سے اسے ایک نظر دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی سوچ ہی لیتے تھے ۔ تھوڑا سا مشاہدہ ضرور کرتے تھے ، جبھی ذہن پہروں اس بُزرگ خاتون کے پُر اسرار کردار میں اُلجھ کر رہ جاتا تھا ۔
سن رسیدہ خاتون تھیں ۔ عمر پچھتر سال کے لگ بھگ کی رہی ہوگی ۔ نام رحتی بیگم تھا ۔ عرف عام میں رحتہ دید یا " رحتہ کجی " کے نام سے پکاری جاتی تھی ۔ وہ ہاتھ میں تھمی ہوئی ایک لاٹھی ٹیکتی ہوئی گاوں کی کج و راست چھوٹی بڑی ، ٹیڑھی میڑھی اور تہہ و بالا گلیوں سے گزرتی رہتی تھی ۔ دُور دُور تک پھیلے ہوئے سرسبز کھیت کھلیان کی اونچی نیچی منڈیروں پر تو کبھی کبھار دامنِ کوہسار بھی نظر آتی تھی ۔ عجیب وضع قطع تھی اُسکی۔ ایک لمبا سا کالے رنگ کا پھرن ( خلطہ ) پہنے ، سر پر ایک سفید رنگ کا قصابہ ڈالے اور قصابہ کے کونوں کناروں سے جھلکتے ہوئے نُقرئی رنگت کے بے ترتیب اور اُلجھے ہوئے بالوں کے ساتھ وہ بڑی عجیب سی لگتی تھی ۔ پھر مٹیالی رنگت کے چہرے پر آڑی ترچھی جُھریوں کا پھیلا ہوا اور اُلجھا ہوا ایک ایسا سِلسلہ ، جِسے ، جیسے کسی مصور نے خاتون کے روئے مغموم و مظلوم پر ان گنت اور بے ترتیب اَٹ سَٹ لکیریں کھینچ کر اس بُزرگ خاتون کی ستم ظریفی کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی بےبسی اور بدنصیبی کا مذاق اُاڑیا ہو ۔
لاغر جسامت ، خمیدہ کمر ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں ، پھٹے ہوئے ہونٹ ، کانوں میں بھاری بھرکم لمبی بالیاں اور پیروں میں پھٹے ہوئے جوتے یا چپل اِس عمر رسیدہ خاتون کو عجیب اور پُراسرار بنا دیتے تھے ۔ کسی بیماری کے سبب خاتون کا سر تواتر کے ساتھ ہلتا رہتا تھا جو اسے بڑی دقت سے دوچار کرتا تھا ۔ گلے میں ایک گلٹی بھی تھی ، جو گلے کی پھانس کے مِصداق تھی ۔ بڑی بھدی لگتی تھی ، حالانکہ گردن میں قدیم وضع کی درجن بھر مالائیں بھی جھول رہی تھیں ۔ اکثر گاوں کے غرب و شرق ، جنوب و شمال اور نشیب و فراز میں نظر آتی تھی ۔ دُکھی تھی ، خاصی غمزدہ بھی ۔ راستے میں ہر آنے جانے والے راہرو سے مُخاطب ہوتی ہوئی اپنا دُکھڑا سناتی تھی اور لوگ تھے کہ بُرا سا مُنہ بنا کر کترا کر نکل جانے کی کوشش کرتے تھے ، پھر لوگ سیر تو وہ سوا سیر تھی ۔ اپنا دُکھڑا سنائے بغیر کسی کو جانے بھی نہیں دیتی تھی ۔ اپنا دُکھڑا ضرور سناتی تھی اور من ہلکا کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی ، سو لوگ ہاں میں ہاں مِلا کر اُسے تشفی دینے کی کوشش کرتے تھے ۔
" ارے سنو تو ۔۔۔۔۔ ۔" وہ کسی کا بھی راستہ روکتی تھی اور اپنی لاٹھی کے سہارے اپنی خمیدہ کمر کے وزن کو لاٹھی پر ٹکانے اور سنبھالنے کی کوشش کرتی تھی ، جبھی مخاطب احتراما اسلام علیکم کہتا ہوا اُس سے مخاطب ہوتا تھا ۔ وہ سلام کا جواب دیتی تھی اور اپنے سرکے متواتر ہلنے کی دقت کے ساتھ اپنا دُکھڑا بیان کرنا شروع کردیتی تھی ۔
" زرا سنو تو ، غفورا میری عزیزہ کو کتنا مار رہا ہے ۔ " وہ اپنا ایک ہاتھ اپنے کان تک لے جاکر جیسے کان لگا کر سُننے کی کوشش کرنے کا عمل دہراتی تھی اور مُخاطب کو بھی کان لگا کر سنُنے کا جیسے اشارہ کرتی تھی ۔
" ارے سنو ، عزی چیخ رہی ہے ۔ کمبخت بُری طرح سے مار رہا ہے ۔ بچاو میری عزیزی کو ۔ ارے کوئی تو بچاو ۔" وہ گریہ زاری کرتی ہوئی اپنے مُخاطب سے التجا کرتی تھی ۔
مُخاطب شش و پنج میں پڑ جاتا تھا کیونکہ اسے کچھ بھی سُنائی نہیں دیتا تھا ۔ کہیں سے بھی ایسی کوئی آوازیں نہیں آتی تھیں ، نہ سُنائی دے رہی تھیں کہ لگے ، جیسے عزیزہ کو مارا پیٹا جارہا ہو ، مگر وہ رحتہ دید کی تشفی کےلئے ہاں میں ہاں ملا کر اپنا سر اثبات میں ضرور ہلاتا تھا ۔ ایسے ، جیسے اظہارِ تاسف کرتے ہوئے رحتہ دید کی نوحہ خوانی کی تصدیق کے ساتھ ساتھ خود بھی نوحہ گر ہو ۔ خود رحتہ دید کا متواتر ہلتا ہوا سر بھی اثبات کے ردِ عمل کا تاثر فراہم کرتا تھا ، جیسے وہ اپنے مخاطب کو سمجھانے میں کامیاب رہی ہو۔ رحتی بیگم کافی دُکھی تھی اور اس پر خاصا ترس بھی آتا تھا ۔
" ہائے ۔۔۔ مار ڈالا کمبخت نے ۔۔۔۔۔ ہائے ۔۔ ہائے ۔۔۔ ارے روکو تو۔ کوئی ٹوکو تو۔۔۔۔ ۔" وہ پھر واویلا کرتی تھی اور اپنا ماتھا پیٹنے لگتی تھی ۔
عزیزہ ، عزیزی یا عزی دراصل رحتی دید کی اکلوتی اولاد تھی جس کی شادی عرصہ قبل غفور شیخ نامی ایک شخص سے ہوئی تھی ۔ غفور شیخ عزیزہ کا شوہر اور رحتہ دید کا خانہ داماد تھا ۔ رحتہ دید کو شکایت تھی کہ غفورا اس کی چاند جیسی بیٹی عزیزہ کو روز مارتا ہے اور اسے اذیتیں دیتا ہے ۔ وہ اکثر اس بات کا رونا روتی تھی اور اپنا دُکھڑا سناتی تھی۔
" اری نہیں ، رحتہ دیدی ۔ یہ آپ کا وہم ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ " کوئی اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ ایک دم سے برہم ہو جاتی تھی ۔ اسے غُصہ آتا تھا اور وہ مُخاطب کو کھری کھری سُناتی تھی ۔
" ارے چپ کرو ۔ بہرے ہو کیا ۔ذرا سنو تو۔۔۔۔۔۔ عزی کیسے بلک بلک کر رو رہی ہے ۔ عقل کے اندھے ، میرے کانوں سے سنو ۔ " وہ پھر اپنے ہاتھ کو کان کے قریب لے جاکر جیسے پھر سے کچھ سُننے کی کوشش کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔ ماں تھی ، اسے جیسے اپنی عزیز اولاد عزیزہ کا درد اور چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ وہ تڑپ اُٹھتی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں اچانک آنسو اُمڈ آتے تھے ، جیسے درد بہت بڑھ گیا ہو اور وہ اندر ہی اندر کُڑ رہی ہو ، جبھی مُخاطب سراسیمہ ہوکر رحتہ دید کی خوشامد پر اُتر آتا تھا اور اس کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کی ڈھارس بندھاتا تھا ۔
" ہائے مارا کمبخت غفورا نے ۔ ارے سنو تو ۔" وہ اپنی بات میں دم پیدا کرتی ہوئی پھر سے چیخنے چلانے لگتی تھی تاکہ سُننے والوں کو اس کی بات کا یقین ہو ۔
غفور شیخ ، عزیزہ کو روز مارتا تھا یا نہیں ، یہ الگ بات تھی ۔ اس بات کی البتہ کوئی شہادت بھی نہیں تھی ، مگر اتنا عیاں تھا کہ کسی روز غفورا نے عزیزہ کو اتنا ضرور مارا ہوگا کہ بزرگ خاتون رحتہ دید کے دل و دماغ پر اس کا اُلٹا اور گہرا اثر پڑا ہوگا ۔ یہ اثر اب تک قائم تھا اور اس اثر کا ردِ عمل بھی عیاں تھا ۔ جبھی وہ اکثر چیختی چلاتی تھی ۔
" اری کوئی میری عزیزہ کو تو بچائو ۔ بچائو نہیں تو غفورا اسے مار ڈالے گا ۔" وہ روہانسی ہوکر بچوں سے لے کر بُزرگوں تک فریاد کرتی تھی ، یعنی جو بھی راستے میں مِلا ، وہ آہ و فغاں اور رونا دھونا شروع کردیتی تھی ۔ یہ عمل اس بات کا بھی مظہر تھا کہ وہ عزیزی کو بہت چاہتی تھی اور اس پر ہزار جان سے قُربان تھی ۔
دوسری طرف غفورا یعنی غفور شیخ ان پڑھ ضرور تھا مگر بادی النظر میں بندہ اچھا خاصا اور متوازن تھا ۔ کبھی کسی پڑوسی نے اُس کے خلاف کوئی شکایت کی ہو ایسا بھی نہیں تھا ۔ پھر کیا غم تھا جو رحتہ بیگم کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔ وہ بڑی عاجز تھی اور خون کے آنسو رو رہی تھی ۔
عزیزہ ، رحتہ بیگم کی اکلوتی دُخترِ عزیزہ تھی ، جسے اس نے بڑے نازوں سے پالا تھا ۔ غریب تھی ، بڑے جوکھم اُٹھا کر اپنی لاڈلی کو جوانی کی دہلیز پر آن کھڑا کیا تھا ۔ اس کی شادی کرائی تھی ، اسے ماں باپ دونوں کا پیار دیا تھا اور پالا پوسا تھا ۔ عزیزہ کا باپ بچپن میں ہی انہیں چھوڑ کر چلا گیا تھا ، جبھی وہ عزیزہ کےلئے فکر مند تھی اور اس کا شام سویرا عزیزہ کے اردگرد ہی گھومتا رہتا تھا ۔ ماں کا درد تھا ، ماں کی ممتا تھی ، ماں کا ایثار تھا جو اُس کے رگ وپے میں مؤجزن تھا ، جبھی وہ عزیزہ کے لئے ہزار جان سے فِدا تھی اور متواتر عزیزہ کے محور کے اردگرد گھوم رہی تھی ۔
گاوں والے اکثر اس حوالے سے غفور شیخ سے باز پُرس کرتے تھے ، اِستفسار کرتے تھے نیز تنبیہہ بھی کرتے تھے ۔ وہیں گاوں کی خواتین غفور شیخ کی بیوی عزیزہ سے بھی سوال و جواب کرتی تھیں کہ اصل میں ماجرا کیا ہے ؟
" ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ماں کا وہم ہے ۔ ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ ۔" جواب ملتا تھا اور لوگ خاموش ہوجاتے تھے ۔ مگر رحتہ دید تھی کہ ہر آنے جانے والے سے فریاد کرتی تھی اور اپنا دُکھڑا سُناتی رہتی تھی ۔
" مار ڈالا غفورا نے ۔ وہ دیکھو مار رہا ہے ، کوئی تو بچائو ۔ ارے عقل کے اندھو ۔۔۔۔ کوئی میری بات مان کیوں نہیں رہا ہے ۔ اُف بڑے ظالم ہو تم سب لوگ ۔ اللہ غارت کرے ۔" رحتہ دید کی یہ درد انگیز آوازیں اکثر گاوں کی فضا اور خلا میں گونجتی رہتی تھیں ، ارتعاش پیدا کرتی تھیں اور ماحول کو پراگندہ کرتی تھیں ۔
اچانک ایک روز رحتہ دید کا انتقال ہوگیا اور اس کی یہ دلدوز اور پُردرد آوازیں خاموش ہوگئیں ۔ ایک سناٹا سا چھا گیا ۔ ایک ہلچل سی ہوگئی ، ایک خلاء سا پیدا ہوگیا ۔ راستے سنسان ہوگئے ۔ گلیاں جیسے خاموش ہوگئیں ۔ لگا کہ کچھ کھو گیا ہے ۔ گھر اور گاوں میں صفِ ماتم بِچھ گئی ۔ سبھی کو افسوس ہوا ۔ سب ماتم کرنے لگے ، زمین مغموم ہوگئی ، آسمان سوگوار ہوگیا ۔ عزیزہ نے آسمان سر پر اُٹھایا ۔ وہ چیخنے چلانے لگی ،اپنے بال نوچنے لگی اور سینہ کوبی کرنے لگی ۔
" ارے کہاں لے جا رہے ہو میری ماں کو۔۔۔۔ ؟ اسے چھوڑدو ۔ "
رحتہ دید کا جنازہ اُٹھتے ہی وہ جنازے کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔ ، کپڑے پھاڑنے لگی اور اپنے بال نوچنے لگی ۔
" اسے چھوڑدو ، میں کہاں جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں ۔۔۔۔۔۔ میری مااااااااں۔"
وہ چیختی چلاتی رہی اور اپنا سر پیٹنے لگی ، جبھی لوگوں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ بدستور چیختی چلاتی رہی ۔ کپڑے پھاڑتی رہی اور اپنے بال نوچتی رہی ۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ تھک ہار کر کمزور پڑگئی اور اس پر دھیرے دھیرے غشی طاری ہونے لگی ، پھر وہ بے ہوش بھی ہوگئی ۔
رحتہ دید تو خیر اللہ کو پیاری ہوگئی مگر گائوں کی چھوٹی بڑی گلیوں میں عرصے تک اُس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہی ۔ اب تو ایک زمانہ ہوا ، شاید لوگ اسے بھول بھی گئے ہوں گے ، مگر گاوں کی ٹیڑھی میڑھی پیچدار گلیوں اور دُور دُور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان میں آج بھی ایک آواز پیہم سنائی دے رہی ہے ۔ یہ آواز ہر آنے جانے والے راہرو سے چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے "۔
" ارے سنو تو ، میری اماں کو کہیں دیکھا ہے ۔؟"
" نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" لوگ حیران ہوکر کہتے ہوئے پلو جھاڑ کر کترا کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
" ارے صُبح کی گھر سے نکلی ہے ، کہاں چلی گئی ؟ اوف اللہ۔۔۔ کہاں گئی ۔۔۔ دیکھا نہیں کیا ۔؟"
وہ بد حال سی لوگوں کے مُنہ تکتی ہے ، لوگوں سےاستفسار کرتی ہے اور ان سے التجا کرتی ہے ۔ یہ درد انگیز آوازیں لوگوں کے جگر تک اُتر جاتی ہیں ، انہیں ہلا کر رکھتی ہیں ، ایک ہیجان سا برپا کرتی ہیں اور ایک طلاطم مچا دیتی ہیں جبھی لوگ آہیں بھرتے ہوئے اپنی چشمِ تر کے ساتھ جوابی ہوتےہیں ۔
" نہیں دیکھا عزیزہ بہن ، نہیں دیکھا بیٹی ، نہیں دیکھا چاچی ، نہیں دیکھا اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" لوگوں کی آنکھوں میں اچانک آنسو اُمڈ آتے ہیں۔
ہر دانگ ایک ہی جواب ملتا ہے ۔" نہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔ نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔ نہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ۔" وہ مایوس ہوتی ہے ۔ پریشانِ حال سی آگے بڑھتی ہے ۔ اپنے متلاشی دیدے پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھتی ہے اور تلاش جاری رکھتی ہے ۔
" ارے کِسی نے میری ماں کو دیکھا ہے ، میری اماں کو دیکھا ہے۔ میری امی کو دیکھا ہے ۔ صُبح کی گھر سے نکلی ہے ۔ ابھی تک واپس نہیں لوٹی ہے ۔ دیکھا ہے کسی نے ، کوئی بتائو تو سہی ۔ ارے بتائو ۔۔۔۔۔۔۔ بتائو ۔۔۔۔۔ خدا کےلئے کوئی تو بتائو ۔۔۔۔۔ بتاااااااائو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ " ۔
���
فرینڈس اینکلیو نیو ائیر پورٹ سرینگر ،کشمیر
موبائل نمبر؛9622900678