بلا شبہ انسان کی زندگی میں جوانی کا دور خاصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔اس دور میں ایک انسان جسمانی قوت ،فکری و تحقیقی صلاحیتوں اور ولولہ انگیز جذبوں سے پُر ہوتا ہے اوراپنے گھر اور معاشرے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے لئے مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے ۔اسی لئےجو قومیں دوسری اقوام پر اقتصادی ،سیاسی ،مذہبی ،سائنسی اور اخلاقی برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی نوجوا ن نسل کی تربیت ،مسائل اور صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ رہتی ہیں۔ظاہر ہے کہ نوجوانی بچپن سے منتقلی کا وہ نام ہےجو انسانی ز ندگی کا نازک مگر حسین دور ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا موسمِ بہار بھی ہوتا ہے ۔اس دور میں نوجوانوں کی فکر اور صلاحیتیں پختہ ہوجاتی ہیں اور نوجوان ان صلاحیتوں کو ایک مناسب سمت دینے کے لئے کامل تربیت کے طلب گار بھی ہوتے ہیں ،جن کے حصول سے وہ قوموں کی ترقی یا تنزلی میں اپنا کلیدی رول ادا کرتے ہیں،کیونکہ مجموعی طور پر نوجوان نسل بلند عزائم کے مالک ہوتی ہے اور جہدِمسلسل ، جفا کشی اور عزم و استقلال اُن کا امتیاز ہوتا ہے ۔مگر یہ نوجوان نسل اُسی صورت میں قوم و معاشرے کے لئے کارگر ثابت ہوسکتی ہے جب اُن کی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔یہ طبقہ تبھی سایہ دار اورثمر آور درخت بن سکتا ہے جب والدین اور پورا معاشرہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے وسایل بروئے کار لانے کا تہیہ کرلیتا ہے،جبکہ ہمارے کشمیری معاشرے میں زیادہ تر لوگ ان چیزوں سے بالکل عاری ہیں،جس کے نتیجے میں ہمارے نوجوانوں میں مقصد زندگی سے ناآشنائی ،تربیت کی کمزوری اور اُن میں فکری ،تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھناہمارے لئےایک المیہ بنا ہوا ہے۔سبھی جانتے ہیںکہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی باکردار اور تعلیم و تربیت سے مزّین نوجوان نسل اُس کا اصلی سرمایہ ہوتی ہے۔مگر ایسی نوجوان نسل تبھی نصیب ہوتی ہے جب اُن کی اعلیٰ تربیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا جائے۔ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمار ا معاشرہ اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر کس قدر توجہ دے رہا ہے اور اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو کس طرح پروان چڑھارہا ہے ۔ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اگرچہ بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے اور ان کی تعلیم ،ہنر اور دیگر صلاحیتوں کا گراف بھی پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجودجو نتائج سامنے آرہے ہیں،وہ نہ تو اُن کے لئے اور نہ ہی معاشرے کے لئے مثبت ثابت ہورہے ہیں۔ دیکھا یہ بھی جارہا ہےکہ ہمارے نوجوانوں میں عام طور پر سوچنے اور سمجھنے کا وہ انداز نہیں پایا جاتا ہے جسے معقولیت پر مبنی سوچ قرار دیا جا سکے۔ بعض اوقات اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کی اُن سے توقع نہیں کی جاسکتیں ۔چونکہ معاشرے میں عموماً یہ ذہن بنا ہوا ہے جونو جوان جتنا پڑھا لکھا ہو، اُس کی سوچ ، ذہانت اور صلاحیت اتنی ہی بلند ہوگی ۔مگر جب زمینی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ خود والدین اپنی کم عقلی یانا فہمی اور اپنی اولاد کے ساتھ بے جا محبت کی وجہ سے اُن کی تربیت اور صحیح رہنمائی کرنے میں نہایت کوتاہی کےشکار ہوجاتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں بعض نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لینے کے باوجود بھی ذہنی اور فکری اعتبار سے کورے نظر آتے ہیں۔اکثر والدین نوجوان نسل کو عملی سرگرمیوں میں اُتر کر اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ہی نہیں دیتے ہیںاور اپنی غلط سوچ کے تحت یہی سمجھتے ہیںکہ اُن کی تعلیم یافتہ اولاد ابھی بھی نابالغ ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہوتاہے کہ ایک نوجوان اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی خود کو نابالغ سمجھتا ہو، مگر اپنے والدین کے اس رویے سے یہ کیفیت بھی پائی جاتی ہے کہ نوجوان نسل اپنے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کے باوجود بعض ایسےمنفی اثرات قبول کرلیتی ہے، جس سے اُن کی شخصیت اور صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔بغور جائزہ لیا جائے توہمارے زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے اوراُن سے فائدہ اٹھانے کے لئےعزم و استقلال کا مظاہرہ نہیں کر پاتے ہیں اوور ساتھ ہی خود محنت و جفا کشی کے اصل مفہوم اور عزم و استقلال کے جذبے و ولولے سے بھی محروم ہوتی چلی جارہی ہے ۔یہ رجحان ایک نفسیاتی بیماری کی طرح ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے،جس سے نہ صرف ہمارا معاشرہ مختلف سماجی،سیاسی اور اقتصادی مسائل سے دوچاررہتا ہے بلکہ ہمارے نوجوان بھی اس صورت حال میں بے سمت کی بھاگ دوڑ میں اپنا قیمتی وقت بُربادکررہے ہیں اور اُنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ اُن پر اپنےگھر اور اپنے معاشرے کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں،جو محض سرکاری ملازمت کے حصول کے انتظار میں بےکار وقت گذارنے سے پوری نہیں ہوسکتی ہیں۔