رئیس احمد کمار
صدام صاحب کو آج سویرے ہی دفتر جانا تھا کیونکہ اس کے آفیسر نے گزشتہ شام فون پر بتایا تھا کہ ڈسٹرکٹ آفیسر کا دورہ ہے، اس لئے انتظامات کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک گھنٹہ پہلے ہی دفتر پہنچ جانا۔ جلدی سے وہ گاڑی اسٹارٹ کر کے دفتر کی طرف چل دیا۔ تین چار کلومیٹر ہی طے کئے تھے کہ مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار آلٹو گاڑی نے اُس سے ٹکر مار دی۔ گاڑی کے اگلے حصے کو بھی نقصان پہنچا اور گاڑی کے اندر رکھی وہ تمام کھانے پینے کی اشیاء، جنہیں وہ دفتر لے جا رہا تھا، مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
صدام صاحب کا غصہ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ فوراً گاڑی سے باہر آیا اور ڈرائیور سے لڑنا چاہا، مگر مخالف سمت والا ڈرائیور اس سے پہلے اپنی گاڑی روک کر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا۔
“صاحب جی! غلطی میری ہی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں۔ آپ بتائیں نقصان کتنا ہوا؟ میں اس کا دُگنا ادا کر دوں گا — مگر، مگر، مگر۔۔۔”
صدام صاحب نے پوچھا: “کیا؟ — مگر، مگر؟”
“صاحب جی! عزت کا سوال ہے۔ گاڑی کے اندر میری بیوی اور سالی ہیں؛ ان کے سامنے مجھے بے عزت مت کیجئے۔”
صدام صاحب یہ الفاظ سنتے ہی بغیر کوئی اور بات کہے، گاڑی میں بیٹھ کر آگے کی طرف بڑھ گیا۔
���
قاضی گنڈ کشمیر