عظمیٰ نیوز ڈیسک
حیدرآباد//مستشرقین اور اہل یورپ نے عربی زبان و ادب پر خاصی تحقیق کی اور مشرق و مغرب کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ثناء اللہ ندوی نے کیا، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ عربی کے استاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرق اور اسلامی و عربی کلچر پر مستشرقین نے جو تحقیقی کارنامے انجام دیئے وہ آج بھی تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔ ان کے مطابق کال بروکلمان اور ان کی کتاب تاریخ الادب العربی کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے۔ جو کہ ایک مشہور مستشرق تھے۔ پروفیسر ثناء اللہ ندوی کے مطابق مستشرقین کی خدمات کو عربی زبان کے ماہرین نے اس طرح سے پیش نہیں کیا جو کہ اس تحقیقی کام کا حق تھا۔ ان کے مطابق دوسری اقوام اپنی زبان کو اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہبی اقدار کی نشر و اشاعت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ شعبۂ عربی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ اس دو روزہ سمینار کا عنوان ’’ عربی زبان و ادب میں مستشرقین کی خدمات‘‘ ہے۔ جس کے افتتاحی اجلاس میں وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے صدارت کے فرائض انجام دیئے۔ قبل ازیں سمینار کے آغاز میں صدر شعبۂ عربی پروفیسر علیم اشرف جائسی نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں سمینار کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس سمینار کے انعقاد کے لیے شعبہ اور اس کے سبھی اساتذہ، ریسرچ اسکالرس اور دیگر اصحاب کا تعاون رہا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ عربی زبان و ادب کو دنیا کے مختلف زبانوں کے مقابل ایک خاص مقام حاصل ہے لیکن عربی زبان کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی کہ محققین نے اسے اس کا مستحقہ مقام نہیں دیا ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرو فیسر عبدالماجد نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مستشرقین کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے۔ مستشرقین کی اس تحریک سے عربی زبان و ادب اور مشرقی و اسلامی علوم پر مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔