وقفہ وقفہ کے بعد وادیٔ کشمیر میںانسان کے ہاتھوں انسان کی ہلاکت کے لرزہ خیز واقعات اخباروںکی زینت بن رہے ہیں،جبکہ گاندربل میں دوستوں کے ہاتھوں دوست کا قتل کا تازہ واقعہ پھر ایک بار ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ کشمیری معاشرےکے تہذیب و تمدن،کردار و گفتار،اخلاص و اخلاق،رواداری و یکجہتی ،ہمدردی و مروت میں کتنا بدلائو آچکا ہےاور جس نہج پر ہم چل پڑے ہیں،اُس نےہمارے باہمی تعلقات میں خود غرضی کی راہ استوار کردی ہے۔جس کے نتیجے میں اب برداشت اور رواداری ختم ہوچکی ہےاور معمولی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئی ہیں۔ یہ المیہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ گئی ہے۔
نتیجتاً، ہماری معاشرتی بنیادیں لرز رہی ہیں اور ہم بحیثیت کشمیری اپنی اصل شناخت کھو رہے ہیں۔جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے میں خود غرضی، بے حسی، بے چینی اور بدتمیزی عام ہو چکی ہے۔ انسانی رویے کرختگی اور سخت مزاجی کی تصویر بن چکے ہیں اور اخلاق و شائستگی جیسے الفاظ اپنی معنویت کھوچکے ہیںاور ہم مزید زوال کی طرف بڑھتے جارہے ہیں،کیونکہ نہ حقیقت کو دیکھتےہیں اور نہ اس کا ادراک کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے انسان محفوظ رہیں مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ بدزبانی، بدکلامی اور ناشائستہ رویے عام ہو چکے ہیں۔ نہ گفتگو میں نرمی باقی رہی اور نہ وعدے کی پاسداری کا احساس۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری معاشرتی بنیادیں کیوں ہِل گئی ہیںاور وہ کونسے عوامل ہیں جو ہمیں عدم برداشت، سخت گیری اور بد اخلاقی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ غور کریں توبات بالکل صاف ہے کہ جب کسی معاشرے میں انصاف کمزور پڑ جائے، حقدار کو اس کا حق نہ ملے، طبقاتی تفریق بڑھ جائے،انصاف و عدل نہ رہے تو وہاں برداشت اور رواداری ختم ہو جاتی ہےنیز جب غربت بڑھ جائے، ضروریات اور خواہشات خواب بن جائیںاور زندگی بوجھ لگنے لگے، تو ایسے میں انسان کے لیے صبر کا دامن تھامنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پھر وہ نہ صرف دوسروں سےبُرے رویے اپناتا ہے بلکہ خود اپنے لئے بھی اچھا نہیں سوچتا۔ اس لئے اگر آج ہم اپنے ان رویوں کا سدّباب نہ کریں تو ہم اپنی اخلاقی اور سماجی اقدار کو مکمل طور پر کھو بیٹھیں گے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خود احتسابی کریں، اپنی زبان و عمل کو سنواریں، اپنے رویوں میں نرمی اور برداشت پیدا کریں اور نبی کریمؐ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنائیں تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں ایک باوقار، عادل اور پُرامن سوسائٹی میں تبدیل ہو سکے۔عدم برداشت ہمارے معاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ صبر، تحمل اور بردباری جیسے اعلیٰ اوصاف دم توڑ چکے ہیں اور ان کی جگہ انتقام، غصے اور بے حسی نے لے لی ہے اور معمولی اختلافات پر ہم مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اب بھی وقت غنیمت ہے کہ ہم سوچیں، اپنے رویوں پر غور کریں اور صبر، حلم، رواداری اور خوش اخلاقی کو اپنی زندگیوں میں واپس لے آئیں۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب یہ انتشار ہمیں مکمل طور پر برباد کر دے گا۔
خوش اخلاقی اور شیریں کلامی کی اہمیت ازل سے مسلمہ ہے۔ نرم گفتاری اور خوش مزاجی وہ اوصاف ہیں جو دلوں کو فتح کر لیتے ہیں، تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں اور اختلافات کو صبر و برداشت کے دامن میں لپیٹ دیتے ہیں۔بلاشبہ الفاظ کا چناؤ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کی نرمی کسی تلخ حقیقت کو بھی قابل قبول بنا سکتی ہے، جب کہ سخت لہجہ اور ترش الفاظ خوشخبری کو بھی مایوسی میں بدل سکتے ہیں۔ افسوس! دین اور دنیا کے تمام علوم ہمیں خوش خلقی، نرمی اور تحمل کی تعلیم دیتے ہیں، مگر ہم اپنی دنیاوی خواہشات کے پیچھے اتنے بھاگ رہے ہیں کہ خسارے کا احساس ہی کھو چکے ہیں۔عدم برداشت بڑھ رہا ہے، معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، لرزہ خیز واقعات آئے روز خبروں کی زینت بنتے ہیں۔اس لئےابھی بھی وقت ہے کہ ہم غور کریں کہ کس طرح ہمارا معاشرہ زوال پذیری سے باہر آسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی اصلاح کریں، خود احتسابی کو اپنائیں اور اپنی زندگیوں میں نرم گفتاری، خوش اخلاقی اور رواداری کو شامل کریں۔ جب تک ہم اپنے اخلاق اور کردار کو بہتر نہیں بنائیں گے، نہ معاشرتی بگاڑ رُک سکتا ہے ، نہ برداشت کا مادہ بڑھ سکتا ہے۔