نفرت انگیز تقاریر کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے جس میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ نے اپنے2022کے حکم کا دائرہ تین ریاستوںسے آگے بڑھاتے ہوئے ملک کی تمام ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کو ہدایت دی کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوںکے خلاف مقدمات درج ہونے چاہئیںچاہے اس ضمن میں کوئی شکایت بھی درج نہ کی گئی ہو۔عدالت عظمیٰ نے نفرت انگیز تقاریر کو ملک کے سیکولر تانے بانے کو متاثر کرنے کا سنگین جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی مذہب کو امتیاز حاصل نہیںہے اور اس کو مذہب سے قطع نظر لاگو کیاجائے کیونکہ مذہب کے نام پر ملک میں جو کچھ ہورہا ہے ،وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔عدالت نے ایسی معاملات میں از خود نوٹس نہ لینے کے بارے میں کہا کہ اس کو عدالتی فیصلہ کی توہین قرار دیاجائے گا اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔اس عدالتی فیصلہ کا سماج کے ہر طبقہ کی جانب سے خیر مقدم کیاجارہا ہے اور ذی شعور طبقوںکا ماننا ہے کہ ایسے عدالتی حکم کی انتہائی ضرورت تھی کیونکہ ملک میں جس طرح مذہب کے نام پر مختلف طبقوںکے درمیان زہر گھولا جارہا ہے،وہ قطعی ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں مختلف مذاہب ،رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں اور یہ کثرت میں وحدت کی علامت ہے ۔ مختلف رنگوں کے پھول ہی بھارت کو ایک ایسا گلستان بناتے ہیں جس پر پوری دنیا رشک کرتی ہے لیکن اب جس طرح عدم رواداری کا چلن عام ہوتا چلا جارہا ہے ،وہ تشویشناک ہے اور اس ملک کے بانیوں نے ایسا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوتا ہے کہ یہاں اس حد تک سماج پولرائز ہوجائے گا۔اس ملک کی جدوجہد آزادی میں ہر کسی طبقہ کا لہو شامل ہے اورکوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اکیلے انہوںنے ہی مادر وطن کیلئے خون دیا ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ ملک کی عوام نے بلا لحاظ مذہب وملت ،رنگ و نسل غلامی کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے ۔ہمارے ملک کے آئین کے افتتاحیہ میں ہی جس طرح اس ملک کی تشکیل کی صراحت کی گئی ہے ،وہ یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ اس ملک میں نفرت و عداوت اور مخاصمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہاں ہر شہری و یکساں حقوق حاصل ہے اور کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے ۔قانون و آئین کی نظر میں سب ایک ہیں اور سب کیلئے جہاں حقوق یکساں ہیں ،وہیں سب کی ذمہ داریاں بھی وضع کی گئی ہیں اور ان سے انحراف پھر بگاڑ و فساد کا موجب بن جاتاہے ۔ہمارا ملک اس وقت جس طرح عالمی قیادت کے حصول کیلئے محو جدوجہد ہے اور جس طرح پوری عالمی برادری بھارت کی اہمیت کی معترف ہے اور وہ بھارت کو ساتھ لیکر چلنے پر زور دے رہی ہے ،اُس صورتحال میں ملک کے اندر کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی یا نفرت انگیزی ملک کی شبیہ عالمی سطح پر بگاڑنے کا موجب بن سکتی ہے جس کے ہم قطعی متحمل نہیںہوسکتے ہیں کیونکہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے بے پناہ قربانیاں دی جاچکی ہے اور اب یہاں سے ہمارے لئے آگے بڑھنے کا ہی راستہ ہے اور ہم کسی بھی صورت میں پیچھے نہیں جاسکتے ہیں کیونکہ اُس صورت میں پھر وہ قربانیاں رائیگاں جائیں گی جو اس ملک کی قیادت اور عوام برسہا برس سے دیتے آرہے ہیں۔موجودہ حکومت نے جس طرح سماج کے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقوں کا معیار حیات بہتر بنانے کیلئے انقلابی اقدامات کئے اور مساوات کے فلسفہ پر عمل پیرا ہوکر سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی پیہم سعی ہے ،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں بلا لحاظ مذہب و ملت اور رنگ و نسل ہر طبقہ آگے بڑھ رہا ہے اور ہر شہری کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کئے جارہے ہیں تاہم یہ کوششیں جبھی بار آور ثابت ہوسکتی ہیں جب ملک میں نفرتوں کو ہوا نہ دی جائے اور ملک کے ہر شہری کو تحفظ کا احساس ہو ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت وقت منافرت پھیلانے والے مٹھی بھر لوگوں کی نکیل کسنے میں کسی بھی دقیقہ فرو گزاشت سے کام نہیں لے رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کوششوںکے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں کہیں مذہب ،کہیں نسل تو کہیں رنگ کے نام پر لوگوںکو تقسیم کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیںاور ایسی تقاریر کا سہارا لیا جارہا ہے ،جو فضاء میں زہر گھولنے کا کام کررہی ہیں۔بلا شبہ ہمارے آئین میں ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس آزادی کی آڑ میں اپنی زبان اس قدر دراز کریں کہ ملک کا سیکولر تانا بانا ہی خطرے میںپڑ جائے ۔اس تناظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ برمحل ہے اور یقینی طو ر پر ایسے عناصر کو ان کی اصل جگہ تک پہنچانا چاہئے جو اس طرح کی نفرت انگیزی کا سہارا لینے میں پیش پیش رہتے ہیں اور اس کیلئے یقینی طور پر تحریری شکایت کا انتظار نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ از خود نوٹس لیکر ایسے عناصر کو جیل کی ہوا کھلانی چاہئے تاکہ بھائی چارہ کی فضاء کو مکدر کرنے کی ایسی کوششیں ناکام بنائی جاسکیں اور یہ ملک حسب سابق کثرت میں وحدت کی علامت کی حقیقی تعبیر بن سکے۔