گزشتہ دنوںقصبہ لنگیٹ شمالی کشمیر میں ایک دوشیزہ پر کسی درندہ صفت نوجوان نے تیز اب پھینک کر انسانیت کے خلاف کھلے بندوں سنگین جرم کا ارتکاب کیا ۔ اس وحشی کو پولیس نے ہندوارہ میں پکڑا۔ مجرم کو پکڑ نا ہی کافی نہیں بلکہ لوگ وہ گھڑی دیکھنے کے منتظر ہیں جب اُسے کڑی سے کڑی سز ادی جائے گی تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں ۔ قانون وانصاف کا یہی اقدام اجتماعی ضمیر کی تسکین کا سامان بنے گا۔ اس میں دورائے نہیں کہ وادی ٔ کشمیر کو ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ اعز از حاصل ہے کہ یہاںماں بہن بیٹی کی عزت وناموس کی نگہداشت سماج کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ بھلے ہی ماضی کی اچھی قدریں ایک ایک کر کے ہم سے بچھڑ رہی ہو ں مگر شکر ہے کہ خرابی ٔ بسیارکے باوجود عوامی سطح پر بنت ِحواکی تکریم وتقدیس قائم ودائم ہے ۔ رشتوں کے ردو قبول میں اب بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ متعلقہ گھرانہ مستورات کے لئے شر یفانہ رویہ اور غیرت مندانہ روش رکھتاہے یا نہیں ۔ افسوس کہ زمانے کی ناہنجار یوں کے زیر اثرکہیں کہیں اس صحت مند فکروعمل کے اُلٹ بھی ہو رہا ہے مگر یہ عمومی حال احوال نہیں۔ تاہم اس بات سے انکار کی مجال بھی نہیں کہ معاشرے کی جھولی چونکہ اوصاف ِ حمیدہ سے تہی دامن ہوتی جا رہی ہے،اس لئے پے درپے جنسی زیادتیوں کی شرم ناک کہا نیاں اور خواتیں کے خلاف دلخراش قصے ہمارے یہاں بھی گاہے گاہے جنم پا رہے ہیں۔ بنت ِحوا پر تیزابی حملوں کی جگر سوز خبریں انسانیت وشرافت کے منہ پر زور دار تھپڑ ہیں ہی مگر ان سے پتہ چلتا ہے کہ کل تک جو بد سلوکیاں کشمیری سماج میں مستورات کے تئیں ناقابل تصور تھیں ،وہ اب شیطان کے جال ، نفس کے بہکاوے اور سیاسی اتھل پتھل کے پس منظر میں معمول کا قصہ بن رہی ہیں۔اس حوالے سے تا زہ شرم ناک واقعہ بھی ہمارے لئے ایک تازیانہ ٔ عبرت ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جب کبھی ایسے منحوس واقعات رونما ہوتے ہیںتو مقامی میڈیا میں دُھوم مچ جاتی ہے کہ انسانیت کی مٹی پلیدہورہی ہے۔ا یسا لازماً ہونا بھی چاہیے، ورنہ یہاں روز نیلوفر ، آسیہ ، تابندہ غنی اور رومانہ جاوید جیسی مظلومیت کی داستانیں بنتی رہیں گی، لیکن پھر ہم اصلاح ِ احوال کی بجائے غفلت کی نیند سوجاتے ہیں اور جاگ بھی جاتے ہیں تو اُس وقت جب کوئی ایسا دوسرا منحوس واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے دروازے پر دستک دے جاتاہے ۔ ہمارے لئے ایسے جگر سوز المیوں کے حوالے سے یہ دو باتیں قابل غور ہونی چاہیے : اول یہ کہ جب سماج کا کوئی وحشی جانور نسوانی آبگینوں پر حملہ زن ہوتاہے تو ارباب ِ اقتدار کیوں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ؟ دوم ان دل خراش سانحات کو روکنے کے لئے حکومت اور سماج کوئی ایسا مشتر کہ حصار اب تلک کیوں نہ بنا سکے جس کی موجودگی میں کوئی بھی درندہ صفت انسان ماں بہن بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ کر تا ؟ حق بات یہ ہے کہ کنن پوشہ پورہ اور بدراں پائیں کے منحوس واقعات سے لے کر دوسرے ناقابل برداشت سانحات تک حکومتی سطح پر جمود و تعطل کی سی کیفیت دیکھی جاتی رہی، جب کہ سماجی سطح پر صرف سینہ کوبیوںاور مر ثیہ خوانیوں پر بس کی جاتی رہی۔ اس لئے یہاں بنت ِحوا کی ہمہ پہلو حفاظت نا ممکن ہونا قرین عقل ہے۔ اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ دلی کی دامنی کو انصاف برق رفتاری سے دیا گیا جب اس ناقابل معافی گناہ میں ملوثین کو جلد ازجلد سزائے موت سنائی گئی ۔ یہاں ہر بار ان معالات میں عدل گستری کے لئے انتظار کی گھڑیاں صرف طویل سے طویل تر ہوتی رہیں۔ بلاشبہ تابندہ غنی، رومانہ جاوید ، صبرینہ فیاض ، آسیہ اور نیلوفر کو مسلنے والے مجرموں کو کڑی سزا ملنے سے ان کی زندگیاںواپس لوٹ نہیں سکتی تھیں مگر کم ازکم مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو پیغام ملتا کہ وہ بنت ِحو اکے گرد قانونی تحفظ اور سماجی تقدس کی دیوار کو صرف ا پنی موت قیمت کی چکا کر ہی پھلاند سکتے ہیں۔ جب خواتین کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث مجرمو ں کی گردن ماپنے میں سال ہا سال قانون کی دیوی بے حس وحرکت رہے تو مستورات کے خلاف نئے نئے جرائم کا پیش آ نا کوئی حیران کن بات نہیں۔ دلی میں دامنی ٹریجڈی کے ردعمل میں سب لوگوں نے بیک آواز انصاف کی دہائیاں دیںتو کوئی تاخیر کئے بنا ہی ملوثین کو دھر دبوچ لیا گیا۔پورے بھارت میںناری بچا ؤ آندولن کے ضمن میں احتجاجی مظاہر ین سے د لی پولیس نے مشتعل ہجوموں سے پتھر ہی نہیں کھائے بلکہ کہ اس کا ایک اہل کار تک اس مخمصے کی بھینٹ چڑھ کر جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھا۔ حتیٰ کہ مر کز کو فوراً سے پیشتر خواتین کی حفاظت مکمل طوریقینی بنا نے کے لئے جسٹس ورما کمیشن کو معرض ِ وجود میںلا نا پڑا۔ کمیشن نے ایک مختصر مدت میںالمناک واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر خواتین حامی قوانین کو مزید سخت بنانے، بنت ِحوا کے عزت اور سماجی وقار کو مکمل قانونی تحفظ دینے کے سلسلے میں قابل عمل سفارشات مر تب کیں ۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس طرح کے ڈمیج کنٹرول کے باوجود بھی ایسے ننگ ِانسانیت واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے کہ قلم اُنہیں بیان کرنے سے قاصر ہے ۔مثلاً دامنی المیہ کے فوراً بعد دلی میں ایک پانچ سالہ بچی کی عزت لوٹی گئی ، مدھیہ پر دیش میںایک سوئس خاتون اور اندھرا پر دیش میں امریکن سیاح خاتون کی عزتیں خاک میں ملائی گئی اور اس وقت بھی تواتر کے ساتھ یہ رُسواکن جرائم ہوتے رہتے ہیں۔بالفاظ دیگر پاپیوں نے حکومتی ایکشن پلان اور سماجی بیداری کے باوجود صاف لفظوں میں یہ پیغام دیا کہ قانون کی بڑی بڑی کتابیں، نعرے مظاہرے اور پولیس ایکشن جرم اور پاپ کا راستہ کھوٹا کرنے میں جزوی طور ہی موثر ثابت ہو ں گی تاوقتیکہ انسان کے اَنگ اَنگ پر ضمیر کا کڑاپہرہ نہ بیٹھے کہ وہ ازخود جرم اور گنا ہ سے باز آجائے۔ بہرحال ماں بہن بیٹی کی عزت کے سوال پردامنی سانحہ کے تناظر میں اربابِ حل وعقد نے ہر ممکن قدم بروقت اُٹھا یا جس کے کچھ نہ کچھ نتائج بھی سامنے آئے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسی کوئی مثال اس باب میں قائم نہ کی گئی کہ جس سے مجرمانہ خصلت والے عناصرمتنبہ ہو جاتے کہ اگر کسی کمینے نے صنف ِنازک کی طرف بری نیت سے دیکھنے کی بھول کی تو قانون اُسے کڑی سے کڑی سزا دے گا۔ ایک بار قانون کے ترکش میں اس تیر کو خلوصِ نیت سے آزما یا گیا ہو تا تو خواتین کی بے آبروئی کر نے یا ان پر تیزاب چھڑکنے والا کو ئی بھی وحشی درندہ اپنا انجام سوچ کرجرم کی سرحد پر ٹہلنے کی جسارت ہی نہ کر تا ۔ بہرصورت سماج میں خواتین کے رُتبہ اور وقار کو بلند کر نے کے لئے یہ لازم وملزوم ہے کہ ان کے ساتھ پیش آئے تمام المیوں کا جلد ازجلد نپٹار ا ہو اور مجرموں کو اپنے کئے کی کڑی سزادی جائے ۔ حواکی بیٹیوں کی قدر ومنزلت اس امر کی متقاضی ہے کہ جو لوگ ماں بہن بیٹی کی سر چادر سے کھلواڑ کرنے کے مجرم قرار پا ئیں ،اُ نہیں وارننگ ملے کہ پورا سماج اور مملکتی نظم ونسق چلا نے والے ادارے متفق علیہ ہیں کہ خواتین کادفاع اور ان کے حقوق کا تحفظ اہل وطن کو جان سے بھی عزیز ہے ۔ اس کے لئے لازم ہے کہ عدل و انصاف کے عین مطابق بنت ِحوا کے خلاف تازہ اور پرانے تمام کیسوں کو سریع الحر کت عدالتوں کے ذریعے فوراًنپٹایا جا ئے تاکہ ماں بہن بیٹی کے خلاف جرائم میں ملوث مجرموں کوبلا تاخیر قرار واقعی سزا دی جا ئے ، یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر صنف ِنازک کی عزت و تکریم کو تحفظ ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔