جمہوری عمارت کی سنگ ِ بنیاد آزاد عدلیہ پر پڑتی ہے ۔ عدلیہ کاآزادہونا جمہوریت کی صحت کے لئے ایک لازمی ضرورت ہے۔ عدالتی نظام کا دباؤ اور دھونس سے آزاد ہو کر فیصلہ سازی کرنا دنیا کی تمام باشعور قوموں کا خاصہ ہے۔ مغربی نظامِ حیات کی بنیاد اگرچہ خدا بیزاری پر قائم ہے اور یہ نظام تصور آخرت سے بالکل عاری ہے، تاہم اس نظام نے آزاد عدلیہ کواپنی جمہوری روایات میں سب سے زیادہ اہمیت عطاکی ہوئی ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعدبھارت اور پاکستان کے قیام میں مغربی روایات کو رواج دینے کے لئے کئی سرکردہ سیاسی و غیر سیاسی قوتوںنے اپنی ساری صلاحیتوں کو ضائع کیا ۔ پاکستان کی تاسیس میں دو قومی نظریے کارفر رہا اوراس حقیقت سے بقائمی ہوش و حواس کوئی بھی شحص انکار نہیں کرسکتا۔ بھارت کی قانونی اور سیاسی جدوجہد میں سب سے بڑھ کرگاندھی کا حصہ رہا ۔ عدم تشدد اور اعتدال کی تعلیم کواپنی قومی حیات کا سرمایہ قرار دے کر بھارت کو آج بھی بزعم خود یہ دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ سیکولر روایات کی بنیادوں پر ہندوستان کا قیام عمل میں آیا اور پنڈت نہرو جمہوری روایات کو استحکام دینے کے دعوے کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوگئے۔ دنیا میں آج بھی ہندوستان کی جمہوریت کا دبدبہ ہے، اور اس جمہوری ملک کی مثالیں کہاں کہاں نہیں دی جاتی ہیں کہ یہاں کثیر المذہب ، وسیع الثقافہ، بے شمار زبانوں اور ان گنت مزاجوں کے حامل لوگ قومی دھارے کے ایک ہی چھت کے رہ رہے ہیںجو اپنا ہر اختلاف قومی مفاد کے لئے ہر اختلاف بھولنے کو تیاررہتے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا ناقابل تردید سچ ہے کہ بھارت کی سیکولر جمہوریت نے ہندو اکثریت کے مذہبی تعصب کے لئے سیاسی ڈھال بن کر سترسال تک کئی سنگ ہائے میل طے کرتے ہوئے لاکھوں سروں کی فصل کاٹ ڈالی اور اب یہ مذہبی انتہا پسند ہندوتوا ایجنڈے کے قدموں تلے اپنے’’ جمہوری سفر‘‘ کو ایک ہیبت ناک منزل پر لاکھڑا کر گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر ہوا، مگر کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک میں اسلامی نظام اور شریعت کی بالادستی کا خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر ہونا باقی ہے۔ قیام کے فوراََ بعد پاکستان کا سیکولر طبقہ سرگرم عمل ہو کر پاکستان کی اسلامی بنیادوں میں کمزوری پیدا کرنے کے لئے سرگرم رہا۔منتخب عوامی قیادتوں کو ہٹا کر بار بار کی فوجی مداخلت اور مارشل لاء لگنے سے بظاہر پاکستان کی جمہوری قوتیں کافی کمزور لگ رہی ہیں ۔’’ ناکام ریاست‘‘ (Failed State)کے طعنے اور ملکی سا لمیت کو درپیش رکاوٹوں کے شوشے بھی ایک الگ طرح کی منفی ذہنیت کو یہاںپروان چڑھارہے ہیں۔ انتہا پسندی اوردہشت گردی کا لیبل لگا کر عالمی ہمدردی سمیٹنے والوں کے پیٹ بھی پھول گئے ہیں لیکن فی الحقیقت دونوں ملکوں کے عدلیہ میں کافی سے بھی زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کی عدالتی فیصلوں کے پس پردہ کیا سیاست ہوتی ہے اور کیا نہیں ،ملکی سیاست پر ایوان ِ عدل کے فیصلوں کے اثرات مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی ۔ ایک عامی اور غیر متعصب انسان کے لئے اس بات کا اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ عدالتی نظام کی شفافیت اور انصاف کی بالادستی کے معاملے میں ان دوملکوں میں کون کتنے پانی میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو70کی دہائی میں اپنے سیاسی کیرئیر کے بام عروج پر پہنچ کر بھی پاکستانی عدلیہ کی مار سے نہ بچ سکے اوراس کے فیصلے پر من و عن عمل ہوا۔ بھٹو وہ حکمران تھا جس نے اپنی ریاست کو معاشی تنگنائیوں کے باوجود ایک نیوکلیائی طاقت بنانے میں اہم کردارادا کیا ۔وہ اپنے چاہنے والوں میں قائد عوام کے نام سے مشہور ہونے کے باوجود سینٹرل جیل راولپنڈی میں تختۂ دار پر چڑھ کر موت کی سزا پاگئے۔ ستر کی دہائی میں ہی ہندوستان کی خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی نے رائے بریلی کی پارلیمانی نشست پر کامیابی حاصل کرکے اپنے حریف راج نرائن کوہرایا۔1866ء میں قائم ہونے والی عدالت الٰہ آبادہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کو انتخابی دھاندلیوں میں ملوث پایا تو پرائم منسٹراندر ا کو کسی بھی ایسے عہدے پر رہنے سے منع کیا جو اس نے انتخاب میں کامیاب ہو کر حاصل کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ 6؍سال کے لئے اس پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا تاریخی فیصلہ محفوظ کیا۔ اس عدالتی فیصلے نے ہی اندرا گاندھی کو 1975ء میں ایمرجنسی کے نفاذ پر آمادہ کیا۔ ایمرجنسی سے ہندوستان میں تمام سیاسی سرگرمیاں ناجائز قرار پا کر جیل خانوں کے دروازے کھولے گئے۔بھارت کی عدلیہ بابری مسجد کیس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے تاہنوز قاصر ہے۔ پانچ صدیوں تک قائم رہنے والی بابری مسجد کی شہادت 1992ء میں شدت پسند ہندؤوں کے ہاتھوں عمل میں آئی اور ابھی تک اس بدترین جرم میں ملوثین کھلے بندوں پھر رہے ہیں اوراتنا عرصہ گزرنے کے باوجود عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ 2002ء کے گجرات فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام ، مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور معصوم بچوں کو زندہ جلانے کے انسانیت سوز جرائم میں ملوثین کے خلاف بھی بھارتی عدلیہ کی جانب سے قانونی مواخذے کا ابھی انتظار ہے۔ ریاست گجرات کی اُس وقت کی سیاسی قیادت کے خلاف نہ صرف یہ الزام ہے کہ قتل عام اور لوٹ مار اس کی خفیہ شہ پر ہوا بلکہ مختلف حلقے چیختے چلاتے ہیں کہ ریاستی حکومت کا گجرات فسادات میں براہ راست ہاتھ تھا۔احسان جعفری (سابق کانگریسی ممبرپارلیمنٹ)قتل کیس میں یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے پولیس اور ریاستی وزیر اعلیٰ کے دفتر بار بار فون کرکے بچاؤ کی اپیلیں کی تھیںمگر بے سود۔ 1988ء میں آئی پی ایس کوالیفائی کرنے والے گجرات کے پولیس آفیسر سنجیو بٹ(Sanjiv Bhatt)نے 2011ء میں سپریم کورٹ میں اظہار حلفی میں یہ انکشاف کیا کہ وہ اس میٹنگ میں شامل تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی نے پولیس افسران کو یہ ہدایت کی کہ ہندو شدت پسندوں کو کھلی آزادی کے ساتھ مسلمانوں پر زیادتی کرنے کا موقع دیا جائے۔اس کے برعکس پاکستانی عدلیہ کا حالیہ فیصلہ جس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پانامہ پیپرز تنازعے کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ سنایا ہے وہ عدلیہ کی آزادی اور با ضمیری کی ایک زندہ مثال پیش کرتاہے۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں اس فیصلے کو ایک شاندار مثال کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا۔عدالت نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر موجود ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو اپنے اثاثہ جات کی جھوٹی تفصیل فراہم کرنے کی پاداش میں عوامی منصب کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔پاکستانی عدلیہ میں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ وہاں ملک کے طاقتور ترین سیاست دانوں ، سیاسی خاندانوں سے وابستہ افراد اور فوج جیسے طاقتور ترین ادارے کے ذمہ دار افراد کے خلاف بھی فیصلے سنائے گئے ہیں۔بھٹو ، مشرف اور نواز شریف چند ایسی مثالیں ہیں جہاں پاکستان کی عدلیہ نے انصاف کی علم کو بلند کرکے دوسروں کے لئے ایک روشن مثال قائم کی ۔اگرچہ جمہوری تجربات کے ضمن میں پاکستان کو’’ ناکام اسٹیٹ ‘‘گردانا بھی جائے اور وہاں کی سیاسی فضا میں فوجی آمریت کو زیادہ دخیل سمجھا جائے، تاہم وہاں عدلیہ کی آزادی انتہائی خوش آئند ہے۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے لیکن ہندوستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے ہاتھوں قانون و انصاف کی قبا بار بار چاک ہوتی رہی ہے۔ عمومی طور پر بھارت میں اقلیتوں کے تئیںانسانی حقوق کی بے آبروئی کے بے شمارواقعات ہندوستانی جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں یہ ریکارڈ اور بھی زیادہ خراب تصویر پیش کرتا ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مستقل خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل،جبری گمشدگیاں ، اجتماعی آبرو ریزیاں،پرامن مظاہروں پر اندھا دھند طاقت کا استعمال، سرکاری سرپرستی میںحقوق انسانی کی منظم کوششیں جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ کنن پوش پورہ کیس، پتھری بل انکاؤنٹر، چھٹی سنگھ پورہ اور اس جیسے واقعات سے ہی زمینی حقائق کا پتہ چلتا ہے۔ نوے کی دہائی میں سرکاری بندوق برداروں ( نابدی )کے ہاتھوں سینکڑوں عام لوگوں کے ماورائے عدالت قتل عام سے متعلق ابھی بہت جگہوں پر پولیس رپورٹیں بھی درج نہیں ہوئی ہیں، ان تمام خونی واقعات میں عدالتی تحقیقات اور قانونی سزا کے بارے میں سوچنا ابھی تک دیوانے کا خواب بنا ہے۔ مژھل انکاؤنٹر میں ماخوذ فوجیوں کی حال ہی میں ضمانت بھی اسی قسم کا ایک چشم کشا واقعہ ہے۔ یہاں علی الاعلان جنگی جرم میں ملوث وردی پوشوں کو کھلی چھوٹ دینے سے باور ہوتاہے کہ ریاستی عوام کی قدروقیمت گاجر مولی سے بھی بہت کم ہے۔ مورال کوا ونچا رکھنے کے نام پر ( یا غیر کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر کی تشفی کے لئے ) ریاست میں وردی پوش کوئی بھی حد پھلانگنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ جمہوریت ہوئی توچنگیزیت) کسے کہیں؟