محمد فضیل حشمت خان
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں فرد اور معاشرہ کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں جہاں مختلف امور پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام پر بھی بار بار زور دیا گیا ہے۔ عدل و انصاف اسلامی معاشرت کا ایک بنیادی ستون ہے جس کی مدد سے کسی بھی قوم یا معاشرے میں سکون و خوشحالی قائم کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کو صرف ایک اصول نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ جوڑ کر مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ ہر حالت میں انصاف کے ساتھ قیام کریں، چاہے معاملہ اپنے فائدے میں ہو یا نہیں۔اسلام میں عدل کا مفہوم صرف قوانین کی پاسداری تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ انسانوں کے تعلقات، معاملات اور اخلاقیات تک پھیلتا ہے۔ نبی اکرمؐ کی تعلیمات میں عدل کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے:’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے حقوق کے معاملے میں دوسروں کے ساتھ انصاف کرے۔‘‘عدل و انصاف کے بغیر کسی بھی معاشرے کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر معاشرے میں عدلیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی تو معاشرتی فساد اور ظلم و زیادتی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ عدل و انصاف کا قیام صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ ہر فرد پر فرض ہے، تاکہ ہر سطح پر توازن قائم ہو سکے۔
اسلام میں عدل کا مفہوم صرف انصاف تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع اور ہمہ گیر اصول ہے جس میں ہر شخص کو اس کا حق دینے، اس کی عزت و وقار کا احترام کرنے اور تمام افراد کو برابر کے حقوق فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ عدل کی بنیاد صرف قانون یا سماجی اصولوں پر نہیں بلکہ اس کا تعلق دل کی نیت اور ایمان سے ہے۔
نبی اکرمؐ کی سیرت میں عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ آپؐ نے اپنے دور میں نہ صرف فرداً فرداً بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں عدل کا قیام کیا۔ آپؐ کے عدلیہ کے قیام میں کوئی تفریق نہیں تھی، آپ نے کبھی بھی کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے ساتھ ناحق سلوک روا رکھا۔ آپؐ کی زندگی میں عدل کا یہ اصول اس وقت بھی واضح تھا جب آپؐ ایک فاتح کے طور پر مکہ واپس آئے، جہاں آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کیا۔
چنانچہ جب ایک عورت جو قبیلہ مخروم سے تعلق رکھتی تھی، چوری کے الزام میں آپؐ کے پاس آئی، تو صحابہ نے کہا کہ یہ ایک عزت دار خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اسے سزا نہ دی جائے۔ لیکن نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں اُسے بھی سزا دیتا۔‘‘
اسلام میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق، عدلیہ کو عدل و انصاف کے اصولوں پر کاربند ہونا ضروری ہے تاکہ ظلم و زیادتی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اسلامی نظامِ عدلیہ میں ہر شخص کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی کو بھی بغیر کسی ٹھوس دلیل یا ثبوت کے سزا نہیں دی جا سکتی۔اسلامی معاشرت میں عدل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد اپنی ذاتی زندگی میں بھی عدل کے اصولوں کو اپنائیں۔ فرد کی سطح پر عدل کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حقوق اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے، کسی کے ساتھ ظلم نہ کرے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے۔ اسلامی معاشرے میں عدل کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی محنت، صلاحیت، اور جدوجہد کے مطابق حقوق ملیں۔ کسی بھی فرد کو اس کی معاشی حیثیت، نسل، رنگ یا مذہب کی بنیاد پر حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے معاشی فرق کو کم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ تمام افراد کو یکساں مواقع مل سکیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے تو ہمیں اسلام کے عدلیہ کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر معاشرتی ترقی ممکن ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ذاتی، معاشرتی اور حکومتی معاملات میں انصاف کے اصولوں کی پاسداری کرے تاکہ وہ اللہ کی رضا اور سکون کی زندگی پا سکے۔
[email protected]