عظمیٰ نیوزسروس
سرینگر//سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر انتظامیہ کے افسران کے طرز عمل پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالتی احکامات کی تعمیل کے طریقہ کار کو نظر انداز کیا، جو کہ ہائی کورٹ کی جانب سے ٹھیکیداروں کی ادائیگیوں سے متعلق ایک حکم کی عدم تعمیل پر توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق تھا۔جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس دیپنکر دتہ پر مشتمل بینچ، مرکزی زیر انتظام خطہ کی انتظامیہ کی طرف سے دائر کی گئی خصوصی اجازت کی درخواست پر سماعت کر رہا تھا، جس میں جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے2 فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو پودے فراہم کرنے والے ٹھیکیداروں کو دو ماہ کے اندر اندر تسلیم شدہ ادائیگیاں کرنے کی ہدایت دی، لیکن یہ حکم نامہ عملی طور پر نافذ نہ ہو سکا۔جب وقت پر ادائیگیاں نہ کی گئیں تو متاثرہ ٹھیکیداروں نے ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا۔ تاہم، یو ٹی انتظامیہ نے اس کے بجائے سنگل جج کے سامنے پیش ہو کر اپنی پوزیشن واضح کرنے کے بجائے براہِ راست ڈویژن بینچ کے سامنے اندرونی اپیل دائر کی، جو مسترد کر دی گئی۔معاملہ بعدمیں سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔عدالت عظمیٰ نے اس رویے پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات’’بیوروکریٹس میں تکبر آ جاتا ہے، وہ ہائی کورٹوں کے سامنے پیش ہونا پسند نہیں کرتے۔‘‘عدالت نے واضح طور پر کہا کہ مناسب طریقہ کار یہ تھا کہ تو ہین ِ عدالت کی کارروائی میں سنگل جج کے سامنے حاضر ہو کر وضاحت پیش کی جاتی کہ ادائیگیاں کر دی گئی ہیں یا قانونی طور پر ان کی ادائیگی واجب نہیں۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا’’ہماری رائے میں یہ درخواست گزاروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ سنگل جج کے سامنے پیش ہو کر وضاحت دیتے کہ متعلقہ افراد کو یا تو ان کی رقم ادا کر دی گئی ہے یا وہ اس کے حقدار نہیں۔عدالت نے مزید کہا کہ جب متعلقہ حکام مناسب وضاحت پیش کریں گے تو ہائی کورٹ قانون کے مطابق ان کے دفاع کا جائزہ لے گی اور فیصلہ کرے گی۔ڈویژن بینچ کی جانب سے سنگل جج کی ممکنہ’روِنگ انکوائری‘ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ایسی کوئی بھی انکوائری قانونی حدود کے اندر رہنی چاہیے اور انفرادی دعوئوں تک محدود ہونی چاہیے۔سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل برجندر چہار، جو یو ٹی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہے تھے، نے کہا کہ ایک وجہ بتائو نوٹس جاری کیا گیا تھا، جو توہین کا مفروضہ ظاہر کرتا ہے۔ اس پر بینچ کی جانب سے سخت ردِ عمل آیا۔جسٹس دیپنکر دتہ نے کہا’’متعلقہ افسر کو ورچوئل طور پر پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔ اگر اس کا وکیل وضاحت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ،تو وہ خود عدالت کو وضاحت دے سکتا ہے۔ آپ کو ڈویژن بینچ کی اپیل میں نہیں جانا چاہیے تھا۔ ابھی تک کسی نے نہیں کہا کہ آپ توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘جسٹس دتہ نے کہا’’کسی بھی درخواست پر عدالت سب سے پہلے وجہ بتائو نوٹس ہی جاری کرتی ہے۔ تو آپ کا مطلب ہے کہ بیوروکریٹوں کو شو کاز نوٹس بھی نہیں دیا جا سکتا؟‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ آیا ہائی کورٹ نے توہین ِ عدالت کی درخواست کو غلط طور پر قبول کیا، بینچ نے دوٹوک جواب دیا’’ہم کیوں اس پر غور کریں؟ ہائی کورٹ اس پر غور کرے گی، جس کے سامنے توہین کا معاملہ زیرِ التوا ہے۔ ہم یہاں کوئی مشیر بن کر نہیں بیٹھے کہ ان افسران کی طرف سے ہائی کورٹ کو بتائیں کہ توہین ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر سنگل جج کی جانب سے کسی افسر کو سزا سنائی جاتی ہے تو وہ متعلقہ افسر ڈویڑن بینچ میں اپیل کا حق رکھتا ہے۔