عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ عدالتوں کو شرح سود طے کرنے اور یہ کب سے قابل ادا ہوگا، طے کرنے کا حق ہے۔ یہ حق ہر معاملے کے شواہد پر منحصر کرتا ہے کہ سود مقدمہ دائر کرنے کی تاریخ، یا اس سے پہلے یا ڈِکری کی تاریخ سے قابل ادا ہوگا۔جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے یہ تبصرہ 52 سالہ طویل قانونی لڑائی کا خاتمہ کرنے کے دوران حکم میں کیا، جس میں راجستھان حکومت بمقابلہ آئی کے مرچنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ سمیت نجی فریقوں کے درمیان ریاستی حکومت کو دیئے گئے شیئر کے ویلیویشن پر تنازعہ تھا۔بنچ نے شیئروں کی قیمت کو لے کر ادائیگی میں کی گئی تاخیر پر نافذ شرح سود کو بھی ترمیم کی۔ 32 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس مہادیون نے کہا کہ یہ پوری طرح سے صاف ہے کہ عدالتوں کے پاس قانون کے مطابق سبھی حقائق اور حالات پر غور کرتے ہوئے مناسب شرح سود مقرر کرنے کا اختیار ہے۔نجی فرم نے کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی تھی، جس میں میسرس رے اینڈ رے کے ذریعہ شیئروں کے 640 روپے فی شیئر کی قیمت کو برقرار رکھتے ہوئے 5 فیصد فی سال کا سادہ شرح سود فراہم کیا تھا۔ نجی فرم نے سود میں اضافہ کا مطالبہ کیا، تو ریاستی حکومت نے قیمت کو چیلنج کیا۔1973 کے اس تنازعہ میں راجستھان اسٹیٹ مائنس اینڈ منرلس لمیٹیڈ(آر ایس ایم ایم ایل)کے شیئر اپیل کنندگان کے ذریعہ ریاست کو منتقل کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے ادائیگی میں تاخیر پر غور کیا اور حکم دیا کہ اپیل کنندگان سود کی شکل میں مناسب معاوضہ کے حقدار ہیں۔عدالت نے 8 جولائی 1975 سے ڈِکری کی تاریخ تک 6 فیصد سادہ سود دینے کا حکم دیا۔ اس نے آگے کہا کہ ادائیگی موصول ہونے تک ڈِکری تاریخ سے 9 فیصد فی سال سادہ سود کی ادائیگی کی جائے گی۔ راجستھان حکومت دو مہینے کے اندر بڑھی ہوئی ویلیویشن رقم کی ادائیگی کرے۔