عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//پریم کورٹ نے بدھ کے روز ملک بھر کی عدالتوں میں فوجداری مقدمات میں الزامات طے کرنے میں ہو رہی غیر معمولی تاخیر پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ یہ تاخیر نہ صرف انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے بلکہ عدالتی نظام کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ ایک ایسے معاملے کی سماعت کر رہی تھی، جس میں ایک ملزم تقریباً دو برس سے جیل میں بند ہے، مگر ابھی تک مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہو سکی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چارج شیٹ 2023 میں داخل کی گئی تھی لیکن الزامات طے کرنے کا عمل اب تک مکمل نہیں ہوا۔اس پر جسٹس اروند کمار نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’دیوانی مقدمات میں موضوعات طے نہیں ہوتے، فوجداری مقدمات میں الزامات طے نہیں ہوتے، آخر عدالتوں میں دشواری کیا ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو عدالت عظمیٰ خود ملک بھر کے لیے واضح رہنما اصول جاری کرے گی تاکہ ایسی تاخیر ختم ہو سکے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں سینیئر وکیل سدھارتھ لوتھرا کو امائیکس کیوری (عدالتی معاون) مقرر کیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل آف انڈیا کو بھی اس موضوع پر معاونت فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے علاوہ بہار حکومت کے وکیل کو بھی اس عمل میں شامل کیا گیا ہے۔عدالت نے کہا کہ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ایسے مقدمات ہیں جن میں چارج شیٹ داخل ہونے کے تین یا چار سال بعد بھی سماعت شروع نہیں ہو پاتی۔ بعض ملزمان طویل عرصے تک جیل میں قید رہتے ہیں، مگر ان کے خلاف الزامات طے کرنے کا عمل شروع نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس تاخیر سے انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ ایک شخص کو بغیر مقدمہ چلائے سالوں تک جیل میں رکھنا آئینی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔عدالت نے نئے فوجداری ضابطہ ہند (بی این ایس ایس) کی دفعہ 251(بی) کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ اس کے مطابق سیشن عدالتوں میں پہلی سماعت سے ساٹھ دن کے اندر الزامات طے کر دیے جانے چاہئیں، مگر زمینی سطح پر اس کا عمل درآمد نہیں ہو رہا۔بنچ نے کہا کہ اگر ملک بھر کی عدالتیں اس ضابطے پر عمل کریں تو فوجداری مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عدالتی نظام کی ساکھ اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب مقدمات کا فیصلہ بروقت کیا جائے۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وہ اب ایسے جامع رہنما اصول بنانے پر غور کر رہی ہے جو تمام عدالتوں پر لاگو ہوں، تاکہ فوجداری مقدمات میں الزامات طے کرنے کے عمل کو تیز کیا جا سکے اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے۔