Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

عدالت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 16, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ کچھ دنوں سے میرے انگ انگ سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں ،علاج معالجہ کرنے اور بہت سی دوائیاں لینے کے بعد بھی کوئی افاقہ نہیں ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
مریض نے ادویات سے بھرا لفافہ ڈاکٹر کے سامنے رکھتے ہوئے بے بسی کے انداز میں فریاد کرتے ہوئے کہا ۔
’’گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دوائیاں لے لیجئے کچھ دنوں میں آپ بالکل ٹھیک ہو جائینگے‘‘ ۔
ڈاکٹر نے اس کا ملاحظہ کرنے کے بعد نسخہ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا اور دوسرے مریض کی طرف متوجہ ہوا ۔ 
  اسی لمحہ کلنک کے سامنے نئے فیشن کی ایک کوری چما چم پر کشش گاڑی رک گئی، جسے دیکھ کر ڈاکٹر کی آنکھیں چوندھیا سی گئیں۔ اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے سلیم کو گاڑی سے باہر آتے ہوئے دیکھا، جو بڑی ادا سے فلمی ہیرو کی طرح چابی انگلی میں گھماتے ہوئے کلنک کے اندر داخل ہو ا۔ڈاکٹر نے خوش دلی سے اس کا استقبال کیا اور مریضوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’کہیے مسٹر سلیم ۔۔۔۔۔۔آج کیسے یہاں کا راستہ بھول آئے۔بڑی زبر دست گاڑی خریدی ہے آپ نے‘‘ ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔یہ گاڑی تو آپ کے پائوں کی دھو ل بھی نہیں ہے ،یہ لیجئے آپ ہی رکھ لیجئے‘‘ ۔
سلیم نے چابی اس کے سامنے رکھتے ہوئے بڑے ہی فنکارانہ انداز میں کہا۔
’’شکریہ سلیم ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
ڈاکٹر ،جس کو دل ہی دل میں سلیم پر رشک آرہا تھا، مذاق سمجھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا توسلیم اس کی بات کاٹ کر سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔ 
’’ہاں ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔آپ یوں اس گاڑی کے مالک بن سکتے ہیں، چٹکیوں میں۔
’’سلیم۔۔۔۔۔۔ تم کو بھی کیسا مذاق سوجھا ہے ،اتنی قیمتی گاڑی بھلا میری کیسے ہو سکتی ہے ؟‘‘
’’ہو سکتی ہے جناب،بالکل ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے سلیم ڈاکٹر کے قریب جاکررازدارانہ انداز میںبغیر کسی وقفے کے اپنی زبان چلانے لگا ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر بھی سنجیدہ ہو کر اس کو سنتا رہا۔ 
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ ہے نا پتے کی بات ،آم کے آم گھٹلیوں کے دام‘‘۔
کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد مطمعن ہو کر سلیم فخریہ انداز میں جانے کے لئے اٹھا تو ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلاکر گویا اپنی رضا مندی کا اقرار کر لیا ۔
’’اینی وے ۔۔۔۔۔۔ فی الحال آپ یہ گاڑی رکھ لیجئے،میں چلتا ہوں‘‘۔
سلیم، جو خوش آمد اور چاپلوسی میں ید طو لیٰ رکھتا تھا، نے دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ ڈاکٹر کوپوری طرح قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔سلیم کی اس دلفریب ادا سے ڈاکٹر کچھ دیر کے لئے سخت تذبذب میں مبتلا ہو کر گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔حرص کی بھٹی اس کے اندر شعلے بن کر سلگنے لگی۔اس کے چہرے بشرے سے سلیم کو یہ اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ ڈاکٹر اس کی اداکاری کے جالے میں مکڑی کی طرح فٹ ہوگیا۔
’’سلیم صاحب ۔۔۔۔۔۔ گاڑی آپ فی الحال ساتھ ہی لے جائیے۔ میں اس ڈیل کے بارے میں سوچوںگااور کل ہم اس کو ضرور فائینل کرینگے‘‘۔
نہ جانے کیا سوچتے ہوئے اس نے چابی سلیم کی طرف بڑھاتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔گھوڑے کو دریا تک تولیا جا سکتا ہے لیکن پانی پینے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ان کاغذ ات کو غور سے دیکھ لینا، میں کل پھر حاضر ہو جائونگا ، خدا حافظ‘‘۔
سلیم نے جیب سے کچھ کاغذات نکال کر ڈاکٹر کو دیتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔
سلیم کئی سال تک ڈاکٹر ریاض کی دوائیوں کی دکان پر سیلز مین کی حیثیت سے کام کرتا تھا ۔بعد ازاں اس نے اپنی دکان کھولی اور کچھ عرصہ بعد ہی ادویات کی ہول سیل تجارت شروع کردی۔اب اس کا نام شہر کے بڑے بڑے نامی گرامی تاجروں میں شمار ہوتا ہے ،جس کے پاس عالی شان بنگلہ اور دفتر ،نوکر چاکر ،ٹھاٹھ باٹھ، غرض عیش و آرام کا ہر سامان موجود ہے ۔ڈاکٹر سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھو کر قلم سے سر کھجاتے ہوئے کلنک کے سامنے پارک کی ہوئی پرانے ماڈل کی اپنی کھٹارہ گاڑی کو دیکھ رہا تھا ۔
’’یہ کھیل تماشہ ۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کا دھوکہ ۔۔۔۔۔ رہے نام بس اللہ کا ۔۔۔۔۔۔اللہ ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
دفعتاً سُلہ نامی دیوانہ تھا اپنے مخصوص انداز میںان الفاظ کا ورد کرتے کلنک میں داخل ہوگیا تو وہ سوچوں کے خول باہر آیا۔ دن بھر مریضوں کو دیکھتے دیکھتے ڈاکٹر کے دل و دماغ میں عجیب سی ہل چل مچی رہی تھی۔ شام کو وہ گھر پہنچ کر حسین خوابوں کے تانے بانے بنتے ہوئے بستر پر لیٹ گیا لیکن نیند نے جیسے نہ آنے کی قسم کھارکھی۔ رات بھر وہ میٹھے خوابوں کے اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر آسمانوں کی سیر کرتا رہا اور صبح جلدی اٹھ کر نیا سوٹ بوٹ اور نکٹائی زیب تن کئے فرط نشاط وانباط میں جھومتے ہوئے کلنک پہنچ گیا۔اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی چمک تھی کیوں کہ آٹھ لاکھ کی گاڑی کا مالک بننے کے فراق میں کہ وہ اپنے دل کی منڈھیر سے رحم کے سارے پرندوں کو آزاد کرکے سلیم کے ساتھ ڈیل کر نے کا فیصلہ کر چکا تھا۔کرسی پر براجمان ہوتے ہی سلیم کے دئے ہوئے کاغذات دیکھنے لگا۔ کچھ لمحوں بعدایک خاتوں اپنی معصوم بچی، جس کی شکل وصورت بالکل ڈاکٹر کی بچی سے ملتی تھی،کو لے کر اندر داخل ہوگئی۔
’’ اب کیسی حالت ہے بچی کی؟‘‘
’’ شکر اللہ کا ۔۔۔۔۔اب بہت حد تک سدھر گئی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔اس کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہیں اور میں کچھ نئی دوائیاں لکھ دیتا ہوں۔ آج کے بعد وہی کھلانا‘‘۔
ڈاکٹر نے عجلت میں کہتے ہوئے قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔
’’رک جائو ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس کی سماعت سے ایک چیخ سی ٹکرائی۔اس نے قلم روک کر دائیں بائیں دیکھا تو بچی اور اس کی ماں کے سوا کوئی نہیں تھا۔آواز کو وہم سمجھ کر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔
’’یہ کیا کرنے جا رہے ہو ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کون ہو تم۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ڈاکٹر سخت لہجے میں گرجا،اس کے ماتھے پر پسینے کی سرد بوندیں نمودار ہوگئیں۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔طبعیت ٹھیک تو ہے نا؟‘‘
خاتون نے ڈاکٹر کی بوکھلاہٹ دیکھ کرپوچھ لیا۔
’’میں ۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔ آپ باہر جا کر بیٹھیے ،میں کچھ دیر بعد بلائونگا‘‘۔
ڈاکٹر خود پر قابو پاتے ہوئے کھسیانے سے ا نداز میں بولااور دونوں ہاتھوں سے اپناسر تھام کرآنکھیں بند کرکے آرام دہ کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی۔۔۔۔۔۔۔   
’’آڈر۔۔۔آڈر۔۔۔آڈر۔۔۔ تمام گواہوں اور ثبوتوںکو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت ڈاکٹر ریاض کو مجرم قرار دے کرسزائے موت سناتی ہے‘‘۔
’’یہ جھوٹ ہے یور آنر ،میں نے کچھ نہیں کیا ہے ،میں بے قصور ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
جج نے بھری عدالت میں فیصلہ سنایا توکٹہرے میں کھڑا ڈاکٹر، جس کے سامنے کفن میں لپٹی بے بس انسانوں کی لا شیںاس کے جرم کی چغلی کھا رہی تھی، بیوہ عورت کی طرح رونے چلانے لگا ۔
’’تم زندہ ہی کہاں ہو ڈاکٹرجو اپنی موت پر چلاتے ہو ۔۔۔۔۔۔تمہاری موت تو کب کی ہوچکی ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر کے سامنے ایک سایہ نمودار ہو کر ہنستے ہوئے ڈاکٹر پر طنز کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
’’کون ہو تم؟‘‘
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔ مجھے نہیں پہچانا ۔۔۔۔۔۔ ۔‘‘۔
’’ تو ۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔۔۔۔کیا غلط کیا ہے میں نے؟‘‘
ڈاکٹر جھنجھلا کر ہڑ بڑانے لگا۔
’’ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ تم طبیب کی اپرن پہن کر گورکن ہو ۔۔۔۔۔۔ گورکن ۔ غریب بے سہارا مریض ہل کا بیل فروخت کرکے ،اپنی بیویوں کے زیور گروی رکھ کر، اپنے ارمانوں کو نیلام کرکے بڑی امیدیں لے کر تمہارے پاس آتے ہیں۔تم ان ہی سادہ لوح بے وسیلہ مریضوں کی زندگیوں سے کھیل کر اپنے خوابوں کے محل تعمیر کرنا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’بس ۔۔۔۔۔۔بس ۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کٹہرے میں کھڑا ڈاکٹر کھری کھری سن کر ماہی بے آب کی طرح تڑپ اٹھا اور اسی لمحے اس کی آنکھیں کھل گئیں۔وہ اوپر سے نیچے تک پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ،اس کا سر چکرانے اور بدن کانپنے لگا۔اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر گھٹاگھٹ پی لیااور رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے سنجیدگی سے کچھ سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔ دفعتًا ہوا کا ایک لطیف ساجھونکا ڈاکٹر کو چھو کر گیا ۔ 
’’ علاج معا لجہ اور بہت سی ادویات لینے کے با وجود کوئی افاقہ نہیں ہو رہا ہے ‘‘ ۔
مریض کے یہ الفاظ بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندنے لگے۔
’’آئی ایم سوری یور آنر ۔۔۔۔۔۔  ‘‘۔
سخت ذہنی کشمکش میں مبتلا ڈاکٹر نے اپنے دونوں کان پکڑتے ہوئے خود کلامی کرتے ہوئے سلیم کے دئے ہوئے کاغذ ایک طرف پھینک دئے اور ایک بڑے بوجھ سے آزاد ہو کر ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہوئے اطمینان سے مریضوں کا علاج کرنے میں محو ہو گیا۔کچھ دیر بعد سلیم کلنک کے سامنے گاڑی کھڑی کرکے فاتحانہ انداز میں لہراتا گنگناتا بے اعتنائی کے ساتھ اندر داخل ہو کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔
’’یہ لیجئے سلیم ۔۔۔۔۔۔ مجھے یہ ڈیل منظور نہیں‘‘۔
ڈاکٹر نے ایک پل ضائیع کئے بغیر اس کے دئے ہوئے کاغذ، جن میں اس کی سکیم کی تفصیلات درج تھیں ،ا س کے لوٹاتے ہوئے اس کی پیش کش کو پائے حقارت سے تھکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ڈاکٹر کی بات سن کر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
’’میں ٹھیک کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس گاڑی یا کسی تحفے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘ ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچئے، قسمت آپ کے در پہ دستک دے رہی ہے اور آپ کے تقدیر کے ستارے چمکنے والے ہیں‘‘۔
میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لیا ہے ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔یہ دوائیاں تو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’یہ دوائیاں نقلی ہیں ۔۔۔۔۔۔دوا کے نام پر زہر ہے یہ ۔۔۔۔۔۔زہر۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ڈاکٹر ، جس کے جسم کا سارا خون چہرے پر سمٹ آیا،نے اس کی بات کاٹ کر کرخت لہجے میں کہا۔
’’اوہو ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔بڑے بڑے سورما دولت کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کے لئے ان دوائیوں کے گیت گاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے ۔پھر کون ہے ؟؟؟جو آپ کو اتنے بڑے فائیدے سے روکتا ہے‘‘ ۔
’’میرا ضمیر۔۔۔۔۔۔  ‘‘۔
ڈاکٹر نے سخت لہجے میں کہا اور سلیم اپنا سا منہ لے کر ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے نکل گیا ۔
٭٭٭
رابطہ ۔۔۔۔۔۔ اجس بانڈی پورہ ((193502  کشمیر ۔
ای میل ۔۔۔۔۔۔[email protected]
فون نمبر9906526432
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ڈی پی زونل صدر ترال دل کا دورہ پڑنے سے فوت
تازہ ترین
سرینگر میں 37.4ڈگری سیلشس کے ساتھ 72سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
برصغیر
قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے، : چیف جسٹس آف انڈیا
برصغیر
پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?