محمد عرفان خان سوداگر
سائنسی علوم کی دنیا یہ حقیقت کی دنیا ہے۔ اس میں تخیلات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ زندگی کی سچائیوں کا انحصار سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ سائنسی ادیب ان حقائق کو یکجا کر کے قدرت کی صناعی کو عام قاری تک پیش کر کے انھیں جینے کی صحیح راہ بتلاتے ہیں۔ ایک بچہ اپنے اطراف کے ماحول کو غور سے دیکھتا ہے اور اپنی فہم و فراست سے گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب ان گتھیوں میں الجھ جاتا ہے تو اُس وقت سائنسی ادیب اپنے رشحات قلم سے اُس کی مدد کرے تو اسے عظیم کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک عظیم میں ایسے کئی اردو سائنسی ادیب اطفال اپنی خدمات بے لوث طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اُن کے شاہکار تخلیقات کسی بھی طور سے کم معیاری نہیں ہیں بلکہ یہ تخیلاتی ادب سے کئی زیادہ معیاری اور فائدہ مند ہیں۔ کیونکہ یہ جینے کا مکمل اور صحیح طریقہ بتلا کر جدید تحقیقات کو اردو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس لئے ان کی جتنی قدردانی کی جائے کم ہے۔ اگر یہ بچوں کے لئے لکھتے ہیں تو اور بھی احترام کے مستحق ہیں اس لئے ان سائنسی ادیبوں کو جنھوں نے ادب اطفال میں اپنی گراں قدر خدمات پیش کیں ان کو محترم عبدالودود انصاری جیسے عظیم محقق و قلمکار نے یکجا کر کے اپنی کتاب ’’ہندوستان میں بچوں کا سائنسی ادب و ادیب (آزادی کے بعد تاحال)‘‘ میں پیش کیا۔
محترم عبدالودود انصاری کی عبقری شخصیت میں کئی اہم پہلو پوشیدہ ہیں۔ وہ اردو کے بہترین افسانہ نگار، نقاد ، انشاء پرداز، شاعر، ادیب اور سائنسی قلمکار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کے محقق ، زندہ دل ، بذلہ سنج ، مشفق باپ اور ذمہ دار شوہر بھی ہیں۔ کسی کام کا بیڑہ جب وہ اٹھا لیتے ہیں تو اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر ہی دم لیتے ہیں اور اس کے بعد اُن کے قلم سے نکلی ہوئی تحریریں شاہکار ہوجاتی ہیں جس کی بلاشبہ اردو ادب میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ اس کی بہترین مثال حال میں شائع شدہ اُن کی تحقیقی کتاب ’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات‘‘ ہے۔ اس طرح کی تحقیقی کتاب کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی دوسری تحقیقی کتاب ’’ہندوستان میں بچوں کا سائنسی ادب و ادیب (آزادی کے بعد تاحال)‘‘ منظرعام پر آئی ہے۔ کتاب کو دیکھتے ہی فاضل مصنف کے عرق ریزی ، محنت اور جستجو کا پتہ چلتا ہے۔ بچوں کے سائنسی ادیبوں کے بارے میں معلومات یکجا کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ اس کے لئے محققین نے کن ذرائع سے ادیبوں سے روابط قائم کئے ہوں گے اور اُن کے کوائف کو یکجا کیا ہوگا، یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ اردو کا کوئی اسکالر اس موضوع کو اپنے تحقیقی مقالہ کا عنوان بناکر کسی یونیورسٹی کو تحقیقی مقالہ پیش کرتا تو یقینا اُسے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جاتی۔کتاب کو جب کھولتے ہیں تو سب سے پہلے نظر انتساب پر پڑتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کا انتساب اُن کے مخلص دوست ڈاکٹر رفیع الدین ناصر سے منسوب کیا ہے ، جو ۴۵؍سائنسی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائع سے اردو سائنسی ادب کی خدمت کرتے آرہے ہیں۔ کتاب کا اگلا صفحہ اپنے کرم فرما ڈاکٹر منصورعالم کے نام کیا ہے جن کی ہمت افزائی کا مصنف نے ذکر کیا ہے۔ اس سے محترم عبدالودودانصاری کی انکساری اور ممنونیت کا پتہ چلتا ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مصنف نے کتاب کی اشاعت کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایسے سائنسی مصنفین جنھوں نے وقت، جذبات اور مال و منال کی قربانی کر کے اپنے رشحات قلم سے بچوں کے لئے سائنسی مضامین پیش کئے ہیں اور کتابیں تصنیف کی ہیں اُن کی سائنسی خدمات اور عظمتوں کو سات سلام کرنا ضروری ہے اور طشت از بام کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ بس اسی کے پیش نظر یہ کتاب پیش کی جارہی ہے ورنہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ ۔ محترم عبدالودود انصاری نے جس مشقت سے اردو سائنسی ادب اطفال کے ادیبوں کی معلومات کو یکجا کر کے اس کتاب میں پیش کیا ہے وہ کسی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں ہے۔ اسی لئے پہلے تقریظ میں حقانی القاسمی نے فرمایا کہ ’’یہ کتاب کئی شقوں پر محیط ہے اور ہر شق معلومات کا گنجینہ ہے۔‘‘ جبکہ تقریظ دوم میں ڈاکٹر رفیع الدین ناصر نے فرمایا کہ ’’بچوں کے سائنسی ادیبوں کے اس طرح کے انسائیکلوپیڈیا کی نظیر پوری اردو دنیا میں کہیں نہیں ملتی‘‘ ۔ استاذالاساتذہ ڈاکٹر کیپٹن ایم ایم شیخ نے فرمایا کہ ’’عبدالودودانصاری کی کتابیں انفرادی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں جن کے تعلق سے میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان میں اس طرح کی کتابیں شاید ہی پہلے کسی ریاست میں شائع ہوئی ہوں۔‘‘
کتاب کے تعارف میں فاضل مصنف نے اردو سائنسی ادب اطفال کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ مختلف ماہرین نے اس تعلق سے جو اقوال پیش کئے اُس کو قلمبند کیا ہے۔ انھوں نے سائنسی مصنفین کو توجہ دلائی کہ بچوں کی سائنسی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کی وہ کوشش کریں۔ محترم عبدالودودانصاری نے اس کتاب میں بچوں کے لئے سائنسی ادب کی ضرورت کو واضح کیا۔ اس کے لئے انھوں نے کئی مثالیں پیش کیں اور بتلایا کہ سائنسی ادب کا فروغ کیسے ممکن ہے۔ محترم عبدالودود انصاری جنھوں نے اب تک ۴۰؍سے زائد سائنسی کتابیں تحریر کیں ، ۵۰۰؍سے زائد مضامین شائع کئے، جس کی وجہ سے ملک کی کئی اکیڈمیوں نے انھیں ۲۶؍سے زائد اعزازات سے سرفراز کیا۔
محترم عبدالودود انصاری کی ایک تحقیقی کتاب ’’ہندوستانی خواتین کی اردو سائنسی خدمات‘‘ بھی ہندوستان کی اولین کتاب ہے جس کی شہرت دوردور تک پہنچی۔ اسی طرح ان کی دوسری کتاب ’’مغربی بنگال میں اردو کی سائنسی خدمات‘‘ بھی ہندوستان کی ریاست کی پہلی کتاب ہے جو بنگال ریاست کی سائنسی منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ موصوف سائنس کی دنیا میں نئی نئی صنف کے ماہر بھی ہیں جس کی مثال ’’آؤ سائنسی خط لکھیں‘‘ اور ’’آؤ سائنسی خط پڑھیں‘‘ کتابیں ہیں جن میں بچوں کو مکتوب نگاری کے ذریعہ سائنسی معلومات پیش کی گئی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ محترم عبدالودودانصاری تحقیق و جستجو میں ڈوب کر نئی نئی چیزیں پیش کررہے ہیں۔
’’ہندوستان میں بچوں کا ادب اور ادیب‘‘ میںاس کتاب میں انھوں نے ملک کے ۵۷؍مصنفین کی تفصیلات مع مکمل پتوں کے پیش کیں، اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے سائنسی ادب پر مشتمل ۱۵۶؍کتابوں کا تعارف پیش کیا اور اُن تمام اداروں کی تفصیلات کو بھی پیش کیا جو بچوں کی سائنسی صلاحیتیں اُجاگر کرنے میں سرگرداں ہیں۔
محترم عبدالودود انصاری نے اپنی اس عرق ریزی کو ۲۴۴؍صفحات پر یکجا کر کے بہترین کاغذ کا استعمال کر کے معیاری طباعت سے آراستہ کر کے ۴۰۰؍روپئے کی قیمت پر معلومات کا خزانہ عوام کے ہاتھوں میں پہنچایا۔ اس جامع تحقیق اور پیشکش کے لحاظ سے قیمت کم ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب کا ہر گھر اور لائبریری میں رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ ؎
کل نہیں پوچھا تو آج پوچھے گا
وقت اپنا حساب پوچھے گا
نونہالوں کو کیا دیا تو نے
پھر بولتا سماج پوچھے گا
رابطہ۔ 09422211634
[email protected]