اُردو کے مشہور و معروف ادیب جناب عبدالغنی شیخ لداخی محتاج تعارف نہیں ۔ ان کا تعلق چین کی سرحد کے قریب واقع لداخ جموں کشمیر سے ہے ۔ آپ اُردو زبان کے ایک بڑے ادیب اور دانش ور ہیں ۔ بچوں کی دنیاکے لئے آپ بہت اچھا اور بہت زیادہ لکھ چکے ہیں۔ ان تحریرات میں ’’ کتابوں کی دنیا ‘‘ اور ’’لداخ کی سیر ‘‘ کو ریاستی حکومت نے 1979ء میں منعقدہ بچوں کے بین الاقوامی صد سالہ میلے میںایوارڈ سے نوازا ۔ بچوں کے لئے لکھی ا ن کی ایک کہانی ’’ دادی اماں ‘‘ کا جموں و کشمیر اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے انگریزی میں ترجمہ کروا کر اسے میٹرک کے نصاب میں شامل کیا ہے ۔ گاندھی جی کی حیات اور فلسفہ پر تحریر ایک مسودے پر شیخ صاحب کو ریاستی کلچرل اکادمی نے صد سالہ گاندھی برسی پر منعقدہ کتابوں کے انعامی میلے میں پہلا انعام دیا ۔ عبدالغنی شیخ صاحب کے ایک ناول ’’دل ہی تو ہے‘‘ کو 1980ء اور انگریزی کتاب Reflections on Ladakh,Tibet and Central Asiaکو 2010ء میں کلچرل اکادمی جموں و کشمیر نے بہترین کتاب کے انعام سے نوازا گیا ۔جناب شیخ صاحب کی ایک کتاب ’’ قلم ،قلم کار اور کتاب ‘‘ کو مرکزی وزارت ِ اطلاعات و نشریات کے شعبہ پبلی کیشنز ڈویژن نے شائع کیا اور دوسری کتاب ’’ لداخ ۔ محققوں اور سیاحوں کی نظر میں ‘‘ کونیشنل بک ٹرسٹ نے شائع کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے افسانے اور کہانیوں کو اپنی ایک کتاب ’’ دو ملک ایک کہانی‘‘ میں جمع کیاہے جو کہ ہندوستان بھر کے رسائل جن میں شمع ،آجکل ،بیسویں صدی ،شاعر ، ایوانِ اُردو ،بانو ، جدید فکروفن اور شیرازہقابل ذکر ہیں، میں شائع ہوچکی تھیں ۔ جموں یونیورسٹی اور اندور یونیورسٹی میںعبدالغنی صاحب پر سکالروں نے پی ۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں ۔ ان کی بہت ساری کہانیوں کا ترجمہ ا نگریزی ،ہندی اور دیگر زبانو ں میں کیا جا چکا ہے ۔ ان کی ایک کہانی ’’ ہوا ‘‘ کا ڈاکٹر رینہ اگروال نے انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے آرہاس ڈنمارک میں بین الاقوامی سمینا ر میں پیش کیا تھا ۔ کل ملاکر شیخ صاحب اب تک درجن سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ موصوف کی کامیاب ادبی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اُردو زبان میں قابل قدر محنت اورتخلیقات پیش کرنے سے عزت و شہرت دونوں کما ئی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ عبدالغنی شیخ صاحب ایک دور دراز اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں مگرجو پڑھنے لکھنے کی سہولیات آپ کو میسر رہیں، ان میں سے چند ایک کا آج بھی لداخ میں تصور کر نا محال ہے ۔ چونکہ اُردو زبان لداخ میں آج تک اپنے فروغ کے ابتدائی منازل بھی طے نہ کرسکی، ایسے میں عبدالغنی شیخ نے اُردو زبان میں اتنی شہرت کمائی جو اپنے آپ میںایک فخریہ کارنامہ ہے ۔ ان کی محنت شاقہ نے ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ ہم محنت و لگن سے پڑھیں لکھیں تو کسی بھی زبان میں خدمت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔اس لئے بعض لو گوں میں خواہ مخواہ کا یہ احساس کمتری کہ اُردو کی وساطت سے کوئی کمال نہیں کیاجاسکتا، ایک غلط سوچ ہے ۔ حق یہ ہے کہ اس زبان کے وسیلے سے بہت سارے لوگ بڑے بڑے لکھاری بنے ۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ غنی شیخ صاحب ایک دور و پسماندہ علاقے میں شعور کی آنکھ کھول کر بھی اس قابل ہوئے کہ اپنی محنت و لگن کے بل پر آگے بڑھے ۔ اس لئے شیخ صاحب کو ایک رول ماڈل کے طور سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف لداخ کے ننھے منے پیارے بچوں کوبلکہ کچھ اچھا کر نے کی اُمنگ رکھنے والی نئی پود کو انتھک محنت کر نی چاہیے اور خود میں من لگاکر پڑھنے لکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ یہ بھی خدمت وشہرت کے آسمانوں میںاُڑان بھر سکے ۔ آپ عبدالغنی صاحب کی نہ صرف کتابیں پڑھ سکتے ہیں بلکہ سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن کے وسیع تجربات اور مفید مشاہدات کا فیض حاصل کر نے لداخ ان سے ملنے آ بھی سکتے ہیں ۔ اللہ انہیں صحت مندی اور خوش حالی سے مالامال کردے۔ آمین
………………….
رابط:دراس لداخ۔۔۔ کشمیر
8082713692