سہیل سالم
اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لئے فکشن ایک بہترین وسیلہ ہے ۔فکشن میں سماج کی اچھائی اور برائی دونوں کا عکس نظر آتا ہے ۔ناول اور افسانے میں معاشرے کے اس موضوع یا مسئلہ کو اجاگر کیاجاتا ہے جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ۔فکشن نگار اسی عام موضوع کو اپنی تخلیقی بصیرت سے اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری کو اس عام فہم موضوع میں ایک نئی دنیا نظر آتی ہے اور پڑھنے کے دوران اسے اس دنیا میں اپنے ہی آس پاس کے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ۔فکشن نگار کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ اختصار و ایجاز کے پیرائے میں تہذیب و ثقافت کی ترویج ،انسانیت کی تعمیر اور سماجی اور سیاسی دھاندلیوں کو منظر عام پر لاتا ہے جس نے معاشرے کی روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ۔
جموں کشمیر کے ہی نہیں بلکہ خطہ لداخ کے فکشن نگار بھی اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے میں اور معاشرے کی غلاظت سے پردہ اٹھانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔جن میں عبدالرشید راہگیر کا نام بھی سر فہرست نظر آتا ہے ۔عبدالرشید راہگیر کا یہ افسانوی مجموعہ ’’ٹوٹتی جڑتی زندگی‘‘2024 میں منصہ شہود پر آگیا اور اس سے قبل ان کا ایک اور افسانوی مجموعہ ’’اندھیرا سویرا‘‘اور ایک ناول ’’احساس ‘‘فکشن کے حلقوں میں متعارف ہوچکا ہے ۔’’ٹوٹتی جڑتی زندگی‘‘میں 13 افسانے شامل ہیں ۔یہ افسانے ہیں ہمیں لداخ کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے کی عبرت ناک صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں ۔راہگیر صاحب کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے آس پاس کی بکھری ہوئی زندگی کے دکھ و درد کو محسوس کیا ہے۔افسانہ ’’ٹوٹتا ستارہ ‘‘ میں عبدالرشید راہگیر نے نئی نسل کی جو نفسیات پیش کی ہے وہ عبرت ناک ہے۔یہ افسانہ پڑھتے ہوئے نئی نسل کے احساسات اور ان کے خام تجربات کا ہمیں فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے۔اس افسانے میں کالج کی زندگی ،اس زندگی کا رکھ رکھاؤ ،عادت و اطوار اور اداب و اخلاق کا انہوں نے شائستگی سے خاکہ کھینچا ہے ۔عبدالرشید راہگیر نے اس افسانے میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نئی نسل نئے ماحول میں پڑھائی کا لبادہ اوڑھ کر کس طرح اپنی زندگی کو بے رنگینی میں تبدیل کرتے ہیں ۔بقول رشید راہگیر:
’’اب تم سے کیا کہوں ۔‘‘
’’کہونا کیا بات ہے۔؟‘‘
’’تم جور کرتی ہو تو کوئی بھی سمجھدار لڑ کی کسی ایڈز زدہ شخص کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں چاہے گی۔‘‘
جواب سنتے ہی وہ دھک سے رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے دانش نے کانوں میں پگھلا ہوا شیشہ انڈیل دیا ہو۔ تن بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ پل بھر کے لئے دم بخود رہنے کے بعدتڑپ کر پوچھا۔’’تو کیا تم ایچ آئی وی پازیٹو ہو گئے ہو ۔؟‘‘اس چبھتے سوال کا کوئی جواب نہ ملا۔ کار میں مسلسل خاموشی چھائی رہی ۔اپنے آرزؤں کے محل کو یوں مسمار ہوتا محسوس کر کے فرطہ غم میں نرگس کی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں ۔دور کہیں ستاروں کے جھرمٹ سے ایک بد نصیب تارا ٹوٹ کر آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتا چلا گیا۔(ص۔40)
’’موم کی گُڑیا ‘‘ میں انھوں نے تانیثیت اور اس کے اصول و ضوابط کو موضوع بنایا ہے ۔انسان کسی بھی ذات ،مذہب یا مسلک سے وابستگی رکھتا ہو لیکن ہمیشہ بدکرداری اور مکر و فریب سے دوری اختیار کرنی چاہیے کیونکہ بدکرداری اور مکر و فریبی سے اخلاقی قدریں دم توڑتی ہیں ۔جب نئے رشتے کی بنیاد رکھنی ہو تو سب سے پہلے ماضی کو مد نظر رکھنا چاہیے مگر مذکورہ بالا باتیں جب عملی زندگی سے دور ہو جاتی ہے تو گھر کا شیرازہ بکھرنے میں دیر نہیں لگتی ۔بقول راہگیر،اس طرح مستیاں کرتے کرتے اچانک منی کے منہ سے ایک ایسے راز کا انکشاف ہوا جسے جان کر وہ بھونچکی رہ گئی۔ گویا کہ سر پہ آسمان ٹوٹا۔ پیروں تلے کی زمین کھسکی ۔ اسلئےکہ منی مستی کی آڑ میں خوشی سے کلکاریاں مارتی اچانک بولی تھی ۔
’’ تم بالکل میری اصلی اماں جیسی ہو‘‘
’’اصلی اماں…..‘‘یہ الفاظ اسکے لئے حیران کن تھے ۔ وہ چونکتی ہوئی متوجہ ہوئی تو منی تو تلی زبان میں بولی ۔
’’ہاں …وہ بھی مجھے تمہاری طرح خوب پیار کرتی تھی۔‘‘
نیلوفر نے مضطرب ہو کر پوچھا۔’’ تو اب کہاں ہے تمہاری اماں …..؟‘‘
’’ ابا کہتے ہیں وہ خدا کے گھر گئی ہے۔‘‘
اور تمہارے ابا کون ہیں…. ؟ ’’دادی کہتی ہیں میں آپ کے سامنے ابا کو ابا نہ کہا کروں ۔‘‘کیوں منی ؟’’اسلئے کہ کہیں آپ بھی مجھے چھوڑ کر چلی نہ جائیں ۔‘‘ (ص ۔45)
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مجموعہ کا سب سے اہم افسانہ ’’ٹوٹتی جڑتی زندگی‘‘ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ راہگیر نے اس افسانے کو اپنے مجموعہ کے نام کے لیے منتخب کیا ہے۔افسانہ’’ٹوٹتی جڑتی زندگی‘‘ازدواجی زندگی کی اہمیت پر مبنی ہے ۔اس افسانے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اہل خانہ کے ہی افراد ازدواجی رشتے کو داغ دار بنانے میں سر فہرست نظر آتے ہیں ۔اصل میں یہ لوگ سماج اور ماحول کو پراگندہ کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن جو لوگ صبر کی رسی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں وہ ہمیشہ تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔عبدالرشید راہگیر لکھتے ہیں:
’’میاں بیوی کی تکرار کس گھر میں نہیں ہوتی ۔ امیر کی کوٹھی ہو یا غریب کی کھولی۔ کبھی کبھی کسی نہ کسی بات پر ٹھن ہی جاتی ہے ہاں مگر جو بھی ہو، سب وقتی ہوتا ہے ۔ دن بر سے بادل کی طرح ذرا سا گرج کر اپنے پیچھے پچھتاوا اور چو کسی چھوڑ جاتا ہے۔ البتہ ، جہاں شیطانی اثر حاوی ہو جائے ، وہاں گھر یا باہر کے سیانے مداخلت کر کے اپنی سوجھ بوجھ سے سنبھال ہی لیتے ہیں ۔۔۔میرے ہاں تو۔۔۔۔۔ بال کی کھال اُتارنے والے آستین کے سانپ بھرے پڑے تھے جو سمجھانے کی آڑ میں اُکسانے اور بہکانے کا گھنا ؤ نا عمل کر کے بسا بسا یا آشیانہ اُجاڑ بیٹھے قصور اصل میں میری بے وفا صبا کا تھا۔ نہ وہ نادان ذرا سی بات پر اُٹھ بھاگنے کی حماقت کرتی ، نہ ہمیں اُلجھن بھرے یہ دن دیکھنے پڑتے۔‘‘(ص۔91)
اس مجموعے کا ایک اور افسانہ ’’جینے کی آس‘‘ہے۔یہ ایک ایسی درد بھری آواز ہے جو یہ کہتی ہے کہ بھوک،مصائب و مشکلات اور تنگدستی نے انسانی زندگی کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے ۔جہاں صرف مایوسی اور نا امیدی کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔بقول راہگیر:’’عجب مطلبی انسان ہے ۔ ان حالات میں کھلے دل سے مدد کرنے کے بجائے تمہاری اجرتیں دبا بیٹھا ہے ۔ کل مجھے ساتھ لے چل ۔ گھن چکر کو ایسا کھرا کھوٹا سناؤں گی کہ آئیندہ اجرت دبائے رکھنے سے پہلے دس بار سوچے گا کہ کہیں پھر سے مٹی پلید نہ ہو جائے ۔‘‘،’’رہنے دے زونہ ، بد بخت ایسا دو منہا سانپ ہے کہ کچھ بھی کہنے کا اُس پر اثر نہ ہوگا۔‘‘(ص۔118)
مذکورہ بالا افسانوں کے علاوہ استحصال ،بدنیت،سر پھرا،روشن ضمیر،دوہری موت،آبی ہیولا ،میاں فصیح ،کوئے کی دانائی اور عشق نا تراشیدہ یہ تمام افسانے اس مجموعے میں شامل ہے جو سماج اور زندگی کے مختلف موضوعات کی عکاسی کرتے ہیں ۔راہگیر کے افسانوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معاشرے اور ماحول کی اندرونی اور بیرونی صورت حال سے بخوبی واقف ہیں ۔انہوں نے اپنا افسانوں اسلوب خود وضع کیا ہے ۔ان کی کہانیاں احساس سے لبریز ہے ۔افسانوں میں شائستہ اور شگفتہ زبان استعمال کرتے ہیں ۔افسانے کے کردار آس پاس کے ہی رہنے والے ہیں ۔راہگیر کی افسانوی کائنات کی سیر کرنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ انھوں ٹوٹتی جڑتی زندگی کے مختلف حصوں میں ایک نیا رنگ بھر کے فکشن کے حلقوں میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے ۔
(رابطہ۔.9103654553)
[email protected]