علم و ادب کی دنیا سے ناآشنا‘اردو زبان کی چاشنی سے محروم ‘قلم اور قلمکار کے مقامِ عظیم سے کبھی قدرے بے پرواہ رہنے والا یہ ناچیز آج اگر کسی قطار وشمار میں ہے تو محض اللہ تعلی کا فضل و کرم ہے کہ مجھے ایک مختصر مدت تک مرحوم عبدالرحمن مخلصؔ کی صحبت میسر رہی۔ جس کی حکیمانہ رہبری کے طفیل میں آج اپنے قلبی احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانے پر قادر ہوں۔ اللہ تعلی انہیں غرقِ رحمت کرے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُن کی وفات(7 مارچ 2014)کے بالکل ایک روز بعد ’’عبدالرحمن مخلصؔ۔۔۔چمن میں دیدہ ور نہ رہے‘‘ کے زیرِ عنوان راقم الحروف نے جو مضمون تحریر کیا تھا اس کی ابتداء سر محمد اقبال کے اس شعر سے کی تھی۔ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
میں آج بھی برملا اظہار کرتا ہوں کہ یہ شعر مخلصؔ مرحوم پر صد فیصد درست بیٹھتا ہے۔موصوف ادب تو ادب سماجی معاملات میں بھی ایک دیدہ ور کے مانند تھے۔انہوں نے حیرت ناک حد تک سماج کو Observe کیا تھاجس کا ثبوت اُن کی تحریروں سے خوب ملتا ہے۔چنانچہ ان کی تمام تصانیف میں بالعموم اور دو تصانیف ’’دعوتِ فکر‘‘ اور ’’زندگی کے رنگ‘‘میں بالخصوص یہ سماجی عنصر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
ہر سماج میں کچھ حساس لوگ ہوتے ہیں جو سماج میں پنپ رہی برائیوں اور غلط قدروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں ۔لیکن ان میں سے کم ہی ہوتے ہیں جو ان برائیوں اور غلط قدروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔مخلص مرحوم ؔکا شمار بھی ایسے ہی کم یاب لوگوں میں ہوتا ہے۔چنانچہ انہوں نے اپنے قلم سے ہمیشہ سماج میں پنپ رہی برائیوں اور غلط قدروں کی نشان دہی کی ہے۔مخلص مرحوم ؔ کے اس سماجی شعور سے متعلق وادیٔ کشمیر کے ایک قدآور شاعر جناب رفیق رازؔ ‘مخلص کے نام ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں۔
’’ میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں آپ(مخلصؔ)کو خدا نے بہت زیادہ سماجی شعور اور دینی فہم سے نوازاہے۔اس پر مستزاد یہ کہ آپ کا اسلوبِ بیان بے حد متاثر کن اور امتیازی ہے‘‘
پروائی‘مکتوب نمبر۔ ۱۲
مخلصؔ مرحوم کے اس سماجی شعور کا اعتراف کرتے ہوئے وادی کے ایک اور قدآور شاعر شہباز راجوریؔ گویاہیں۔ ’’آپ کی شیرین نگاہیں پسِ پردہ حقیقتوں کا ادراک اور تشریح کا ملکہ رکھتی ہیں۔ہمارے ریاکارانہ اورنمائشوں پرتعمیر معاشرے میں بہت کم لوگ سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔پھر ان محسوسات کو آپ کی جیسی قدرتِ بیان کے ساتھ پیش کرنا خال خال ہی میسرہے‘‘
ایضاً‘مکتوب نمبر۔۱۱
عبدالرحمن مخلصؔ کے سماجی شعور کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سال 1970 کے آس پاس موصوف نے چند دیگر ساتھیوں کے اشتراک سے اپنے آبائی گائوں سیرجاگیر ، جو سوپور سے متصل ہے، کی فلاح وبہبود کے لئے ’’villiage welfare society‘‘کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی جس کی غرض وغایت تحریک کے مسودئہ آئین میں اس طرح رقم ملتی ہے:۔
’’اس سوسائٹی کی غرض و غایت اور مقصد دیہات سدہار سے وابستہ ہے۔اس سلسلے میں یہ سوسائٹی مختلف شعبوں میں خود بھی کام کرے گی اور دیہاتیوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں محسوس کرنے کی ترغیب دیگی۔ اس طرح سے گویا یہ سوسائٹی عوام اور حکومت کے درمیان ایک وسیلے اور ذریعے کا کام کرے گی۔‘‘
مسودئہ آئین ولیج ویلفیئر سوسائٹی ‘سیرجاگیر صفحہ۔4
مخلص ؔمرحوم اپنے آبائی گائوں میں ایک کتب خانہ (Liberary) قائم کرنے کے بے حد متمنی تھے، جس کا ذکر انہوں نے کئی بار مجھ سے کیا تھا۔البتہ ساتھ ہی کفِ افسوس بھی ملتے تھے کہ سماج ایسے کسی شعور سے قدرے محروم ہے۔لیکن مرحوم موصوف نے چونکہ خدمتِ خلق اور اصلاح ِ انسانیت اپنا نصب العین بنایا تھا لہذا وہ سماج سے کوئی مثبت ردِ عمل نہ ملنے کے باوجود زندگی کے آخری لمحات تک موجودہ سماج کے اندر پنپ رہی ہر برائی کے خلاف ایک قلمی جدوجہد کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے عالمِ شباب میں کئی اسٹیج ڈرامے بھی کئے‘جن کامقصد ہی اصلاحِ سماج تھا۔چنانچہ وہ اپنے ادبی سفر نامچے میںرقمطرازہیں:۔
’’خدمتِ خلق اور اصلاح ِ انسانیت میرا نصب العین ہے۔جب لڑکا تھا تو دوسرے لڑکوں کیساتھ ڈرامے سٹیج کرتا تھا۔ان ڈراموں کی سربراہی میرے گائوں کے ساتھی پنڈت تریلوکی ناتھ شالہؔ کرتے تھے‘جو چند سال پہلے لا کے پروفیسر تھے۔‘‘
روزنامہ کشمیر عظمیٰ 16مارچ 2014۔صفحہ۔4
مختصر یہ کہ عبدالرحمن مخلصؔ ایک باشعور اور مخلص ادیب تھے ۔ان کی ہر تحریر سے ان کی نیک نیتی اور خلوص جھلکتا ہے۔وہ صوم اور پنجگانہ صلوۃ کے پابند تھے جو اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔چنانچہ اُن کی پُر خلوص ادبی خدمت کا اعتراف بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں نے کیا ہے۔ ؎
نہ غورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیاکیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
۔۔۔
رابطہ؛سیر جاگیر سوپور‘کشمیر۔۔۔8825090545