جنوبی کشمیر میں فورسز کی جانب سے وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اُس سے 90کی دہائی کی یادیں تازہ ہوئی ہیںاوربعینہہ ویسے ہی واقعات پیش آنے لگے ہیں، جواُس وقت سیکورٹی اداروں کا معیاری طریقۂ کار تھا اور جسے ختم کرنے کے نعرے کی بنیاد پر حکمران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی2002میں برسراقتدار آئی تھی اور مرحوم مفتی محمد سعید نے اس صورتحال پر کسی نہ کسی حد تک قابو پایاتھا اور لوگوں کو راحت کی سانس لینے کا موقع ملا تھا، لیکن آج فضاء پر چوتھائی صدی قبل کے بادل پھر تیر رہے ہیں جس سے پیدا شدہ گھٹا میں مرحوم وزیراعلیٰ کا وہ خواب دھند لاکر رہ گیا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران شوپیان کے علاقہ میں دو مرتبہ وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کرنے کے جو واقعات پیش آئے ہیں، اُن میں عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کی اطلاع اس امر کی مظہر ہیں کہ سرکار کی جانب سے صورتحال کو قابو کرنے کی خاطر عوام کے اعتماد کو مستحکم کرنے کے سارے دعوے دھر ے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی، جنہیں سلامتی امو رکا چار ج بھی حاصل ہے اورفوجی سربراہ کی وادی میں موجودگی کے دوران شوپیان علاقہ کے ہف اور شرمال دیہات میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کے دران عام شہریوں کا زدو کوب کرنے کے واقعات نہایت ہی دل شکن ہیں، کیونکہ میڈیا کے توسط سے میسر اطلاعات کے مطابق اس کاروائی کے دوران درجنوں افراد زخمی ہوئے جن میں کئی معمر و بزرگ شہری اور خواتین شامل ہیں۔اُنکا گناہ صرف یہ تھا کہ انکے بچے جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔عام لوگوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے کس قانون میں یہ بات شامل ہے کہ بیٹے کے بدلے میںوالدین کو نشانہ بنایا جاے او اگر کوئی انہیں بچانے کی کوشش کرےتو اسکا زدوکوب کرکے اسے زخمی کیا جائے۔ اگر چہ پولیس کی جانب سے کوئی وقت ضائع کئے بغیر یہ جتلانے کی کوشش کی گئی کہ آپریشن کے دوران حد سے زیادہ ضبط سے کام لیا گیا، لیکن اگر اسی کو ضبط و احتیاط مان لیا جائے تو بے ضبطی اور بے احتیاطی کی توضیح کیا ہوسکتی ہے؟ ملی ٹنسی مخالف آپریشن فوج کی ضرورت اور ذمہ داری ہے، اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان آپریشنوں کے دوران عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بناناکیسے جائزہوسکتا ہے، جبکہ آئین کی طرف سے عام لوگوں کو پُر امن طریقے سے جینے کےلئے حقوق حاصل ہیں، بلکہ عام شہریوںکے حقوق کے تحفظ اور بالادستی کو ہی جمہوریت کی روح قرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن کشمیر میں پہنچ کر جمہوری اصولوں کے آکار کیوں بدل جاتے ہیں؟ اسکے لئے ہمارے وہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جواب دہ ہیں جو گزشتہ 70برسوں کے برسراقتدار رہے ہیں ۔ جانوروں کا شکار کرنے میں استعمال ہونے والے پیلٹ گن پر ملک و بیرون ملک اور سیاسی و سماجی حلقوں میں گزشتہ ایک برس سے مباحثے چلے ہیں اور انتہا پسند نظریات کے حامل معدوے چند لوگوں کی حمایت کے ما سویٰ تمام حلقوں نے اسے غیر انسانی اور بہیمانہ عمل قرار دیا، جس پر حکومت نے سپریم کورٹ کو بھی اسکا متبادل متعارف کرانے کی یقین دہائی کرائی تھی لیکن ہف شہر مال میں فورسز تشدد کے خلاف آمادہ بر احتجاج لوگوں پر پھر یہ ہتھیار استعمال کیا گیا، جس کے دوران آٹھ افراد ان چھروں سے مضروب ہوگئے، جن میں ایک ایسا نوجوان بھی شامل ہے ، جسکی آنکھ میں پیلٹ لگا ہے۔ فوجی سربراہ اور ایک وزیر کی وادی میں موجودگی کے دوران عام شہریوں کےخلاف اس نوعیت کی کاروائی کی شرح کرنے کی غالباً ضرورت نہیں۔ البتہ اس بات سے اختلاف کرنے کی شاید ہی گنجائش ہو کہ عام شہریوں کےخلاف یکطرفہ کاروائیاں کرنے ،ان کاروائیوں کا دفاع کرنے اور ایسی کاروائیوں میں ملوث اہلکاروں کا قانونی مواخذہ نہ کرنے سے حالات میں بہتری پیدا ہونے کا کوئی امکان پیدا نہیںہوسکتا۔ ایسی صورت میںاگر مختلف حلقوں کی جانب سے حکام پر کشیدہ حالات کو انگیخت کرنے کے الزامات عائید کئے جاتے ہیں تو انہیں کیسے جھٹلا یا جاسکتا ہے۔