ایک اہم سوال جس سے دیگر کئی سنگین سوالات نکل رہے ہیںاورریاض سے دوحہ اور تہران سے واشنگٹن تک سر اٹھا رہے ہیں۔یہ بنیادی سوال مسلمان دنیا کے لئے انتہائی تشویش ناک بن چکا ہے ۔اس کے جواب میں ،واشنگٹن اور تل ابیب مسلمان دنیا کی بربادی کا سامان کررہے ہیں ۔یہ تلخ ترین حقیقت قابل مشاہدہ اور قابل فہم ہے ۔سوال یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کا مستقبل کیا ہے ؟اس سوال کا جواب کس حد تک امریکہ اور اسرائیل کے لئے اطمینان بخش ہے؟ یہی یہاں موضوع ہے ،جسے اگر ایک نام کے تحت سمجھا جائے تو وہ نام ہے سعودی ولی عہد محمد سلمان بن سلمان کا ،جسے حال ہی میں امریکی حکام نے منظوری سے سرفراز کیاہے۔گوکہ ابن سلمان کی بطور ولی ٔعہد نامزدگی 21؍جون 2017ء کو ہوئی مگر امریکی حکام اسے مارچ سے ہی سعودی عرب کا مستقبل قرار دے رہے تھے۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ The Washington institute for Near East Policy(یہ ادارہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات اور پالیسی سازی کا اہم مرکز ہے)نے 13؍مارچ 2017ء کو ایک پالیسی الرٹ مضمون شائع کیا ۔ سائمن ہینڈریسن نے اسےSaudi Arabias Future Meets the Trump Adminsistrationکا عنوان دیا ۔اس مضمون میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے دورۂ امریکہ کی نوعیت بیان ہوئی ہے ۔
مضمون بتاتاہے کہ محمد بن سلمان کے دورۂ امریکہ میں ایران ،ریڈیکل اسلامی دہشت گردی ،شام ،یمن اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل مرکزی موضوع تھے ۔امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس سے تین گھنٹے طویل گفتگو میں بن سلمان نے یقین دلایا کہ مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن ایجنڈا ہی ریاض کا ایجنڈا ہے ۔اس دورے کے دوران بن سلمان واشنگٹن کے چہیتے سعودی پکارے گئے ۔حالیہ عرصے میں بن سلمان اور اسرائیلی حکام میں ملاقاتیں اب کھلا راز ہیں ،جس پر اسرائیلی وزیر انٹلی جنس یزرائیل کاٹز کے بیان نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔موصوف بن سلمان کی بطور ولی عہد نامزدگی پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ۔بادشاہ شاہ سلمان کو مبینہ طور دعوت بھیج دی ہے کہ بن سلمان کو اسرائیل بھیج دیا جائے تاکہ ریاض اور تل ابیب شیرو شکر ہوجائیں ۔یہ مسلمانوں کے لئے سو سال کی بدترین خبروں میں سے ایک ہوگی اگر یہ واقعہ رونما ہوا۔
ولی عہد محمد بن سلمان وزیر دفاع بھی ہیں اور یمن جنگ میں اوروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔اس دوران یمن میں شام کی طرح زندگی برباد ہوچکی ہے ۔اپنے ہی دوسرے بھائی قطر سے قطع تعلق میں بھی ولی ٔعہد کا اہم کردار سامنے آرہا ہے ۔غرض مشرق وسطی میں فتنہ و فساد کا حالیہ منظر نامہ بن سلمان کا مایوس کن کردار سامنے لارہا ہے ۔یہی مایوس کن کردار سعودی بادشاہت کا مستقبل نظر آتا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب نئے ولی عہد کی کوششوں کا نامبارک ثمرہ ہی تھا ،اسے سعودی عرب میں سیاسی ردو بدل کی اہم وجہ سمجھا جارہا ہے ۔
سعودی بادشاہت کا یہ مستقبل ایک خبر میں سمجھا جائے تو خدشات ہی خدشات نظر آتے ہیں ۔خبر یہ ہے کہ ریاض نے دوحہ کے سامنے 13شرائط پیش کردیں۔اگر قطر یہ شرائط پوری نہیں کرتا تو جنگ جیسا احمقانہ مس ایڈوینچر پیش آسکتا ہے ۔قطر پر سے پابندیوں کا خاتمہ شرائط پر عملدرآمد سے مشروط ہے ۔یہ شرائط دراصل واشنگٹن اور تل ابیب کا ایجنڈا ہے جسے سعودی بادشاہت کے منہ میں ڈال کر اُگلا جارہا ہے ۔یہ شرائط واضح کررہی ہیں کہ مسلمان دنیا میں مغرب کے کیا ارادے ہیں اور ان ارادوں میں نو آموز ولی ٔعہد کا کردار کتنا اہم ہوسکتا ہے ۔
پہلی شرط یہ ہے قطر اخوان المسلمین سے تمام تعلقات منقطع کردے ۔دوسری شرط یہ کہ ایران سے سفارتی تعلقات توڑ دئے جائیں ۔تیسری شرط ہے کہ قطر سے ترکی کا فوجی اڈہ ختم کیا جائے ۔چوتھی شرط کہتی ہے کہ قطر فی الفور غیر ملکیوں کو شہریت دینا بند کرے اور انہیں ملک سے بے دخل کرے۔الجزیرہ ٹی وی اور متعلقہ ذرائع ابلاغ فوراً بند کئے جائیں ۔امریکہ کے مقرکردہ دہشت گردوں کو دہشت گرد سمجھا جائے اور فوراً قطر سے نکال دیا جائے ۔ دیگر شرائط مذکورہ کی تفصیل میں آتی ہیں :مثلاً فلسطینی تحریک آزادی اور غزہ کی حکومت حماس پر پابندیاں لگانا اور عالم دین علامہ یوسف القرضاوی پر قدغن لگانا وغیرہ شامل ہیں۔
وہ سارے ارادے شرائط کی اس فہرست میں آگئے ہیں جو تل ابیب کی تمنا ہیں ،جو واشنگٹن کا مشن ہیں اور جو مسلمان دنیا کی مکمل تباہی و بربادی ہیں۔یہ وہ سب ہے جسے سعودی بادشاہت اپنے مستقبل سے جوڑ رہی ہے ۔یہ شرائط صرف قطر کے لئے نہیں بلکہ پوری مسلمان دنیا اسے یہ شرائط تسلیم کرنا ہوں گی یعنی اخوان المسلمین اور حماس جیسی منتخب اسلامی جمہوری جماعتوں کو نہ صرف دہشت گرد قرار دینا ہوگا بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کا انکار کرنا ہوگا ، فلسطینی و شامی بچوں کے قتل عام میں معلوم ونامعلوم قاتلوں کا دست و بازو بننا ہوگا اور مشرق وسطیٰ میں قتل و غارت کی مغربی مہم میں ہر اول دستہ بننا ہوگا ،یا کم از کم خاموش تماشائی بننا ہوگا۔یوں سمجھئے یہ شرائط مسلمان دنیا کی تباہی کا نسخہ ہے ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ کئی ایک خلیجی ممالک بشمول فرعونی مصر ،ان شرائط کی خاطر ہر حد سے گزرنے کے لئے تیار ہیں۔حماس اور اخوان المسلمین مسلمان دنیا کا وہ معیاری کردار ہیں ،جن کی دشمنی میں ریاض ،تل ابیب،واشنگٹن ،قاہرہ ،دلی ، ماسکو ،دمشق ،بغداد اور داعش ایک صفحے پر ہیں ۔کیوں ؟اس لئے کہ اخوان اور حماس اسلام کا اصل شہرہ ہیں ،جسے مٹادینا چاہتے ہیں ۔واحد ترک مسلمان ہیں جو اسلام کے مستقبل کی ممکنہ اُمید ہیں ۔بظاہر یہی راہِ نجات نظر آرہی ہے جو اسلامبول کی راہوں سے نکل رہی ہے ۔مختصراً یہ کہ اسرائیل و امریکہ بن سلمان کے ولیٔ عہد نامزد ہونے پر جشن منا رہے ہیں ۔اسرائیل نے اسے تل ابیب کے لئے خوشخبری قرار دیا ہے ۔ یقیناً مسلمانوں کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے ۔مسلمانوں کو صرف اسلام کا دامن تھامنا ہوگا ،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا ۔