سرینگر//عالمی یوم موسمیات ہر سال اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے عالمی موسمیاتی تنظیم کے زیرِ اہتمام 23 فروری کو منایا جاتا ہے۔1875 میں موسمیات کا عالمی کنونشن معرض وجود میں آیا اور پھر عالمی موسمیاتی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔وادی سمیت دنیا بھر میں آج موسمیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد موسمیاتی پیش گوئیوں میں محکمہ موسمیات کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور میڈیا کی توجہ محکمہ موسمیات کی جانب مبذول کرواناہے۔23مارچ2018کو موسمیات کا عالمی دن ’’موسم تیار،آب وہوا ہوشمند ‘‘کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔موسمیات کے عالمی دن کی ابتدا23مارچ 1950 سے ہوئی تھی۔وادی اور پیر پنچال خطے میں امسال بھی موسم سرما کے دوران خشک موسمی صورتحال نے کئی سولات کھڑے کئے ہیں۔چلہ کلان اور بعد میں آنے والے ایام کے دوران رواں سال کے دوران بھی میدانی علاقوں میں جہاں بہت کم برفباری ہوئی،وہی پہاڑی علاقوں میں بھی روایتی انداز میں برف دیکھنے کو نہیں ملی۔موسم سرما میں بارشیں بھی نہ ہونے کے برابر ہورہی ہیں،جس کی وجہ سے ماہرین بھی جہاں تذبذب کے شکار ہیں،وہی انکا ماننا ہے کہ عالمی تپش کا اثر بھر پور نظر آرہا ہے۔ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ 130سالہ موسمی اعداد و شمار سے ثابت ہو تا ہے کہ جموں وکشمیر کے اوسط درجہ حرارت میں گذشتہ ایک صدی کے دوران1.2ڈگری سیلشیس اضافہ ہوا جوعالمی سطح کی اوسط0.8ڈگری سلشیس کے اضافے سے کہیں زیادہ ہے۔ان ماہرین کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر مجموعی طو ر باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی کی رفتار سے حدت پکڑ رہا ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے موسمی تغیرات کو عالمی تپش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ’’ ارضیاتی شبانہ درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت موسمی تغیرات کے سبب پہاڑوں پر واقع گلیشئر اور قطبی برف کی تہہ تیزی سے پگھل رہے ہیںجس کی وجہ سے برف اور بارش کی سالانہ مقدار پراثرات مرتب ہو رہے ہیں‘‘۔رامشو نے کہا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران جموں وکشمیر کے درجہ حرارت میں معمول کے درجہ حرارت سے 1.2ڈگری سلشیس اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی مدت کے دوران عالمی درجہ حرارت کی اوسط میں0.8ڈگری اضافہ ہوا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل برف ، پانی اور بر فانی درے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔پروفیسر رامشو کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت میں اضافہ زمینی خدوخال اور زمینی سطح سے اونچائی پر منحصر ہے ۔انہوںنے کہا کہ موسمی تغیر کے اثرات زمینی سطح پر پہلے ہی محسوس کئے جا رہے ہیں اورناقابل اعتباری برف باری اور بارشوں کاطرز ،غیر معمولی طور پر سرد موسم میں گرمی کی شدت حقیقت میں جموں وکشمیر کی ماحولیاتی تغیرات کی خصوصیات ہیں۔ انہوںنے مزید کہا کہ حالانکہ موسم کے مطابق باراں میں نمایاں کمی ہی صرف یہاں تشویش کا باعث نہیں ہے بلکہ جموں وکشمیر کے شبانہ درجہ حرارت میں اضافہ بھی تشویش کے قابل ہے۔محکمہ موسمیات کے ماہرین بھی عالمی تپش کی وجہ سے شبانہ درجہ حرارت میں اضافہ کا اعتراف کرتے ہیں ۔تاہم ان کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت کی اوسط میں اتنا اضافہ ممکن نہیں ہے۔ سرینگر میں مقیم محکمہ موسمیات کے صوبائی نظام کے مطابق گذشتہ ایک صدی کے دوران عالمی درجہ حرارت میں 0.75ڈگری سلشیس اضافہ ہوا جواگرچہ برائے نام ہے تاہم مستقبل میں اس کے خطر ناک نتائج برآمد ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے زمینی خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم کی رپورٹ میںبھی کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی بلاشبہ ہو رہی ہے جس کے اثرات سب سے زیادہ آبی موسمیات پر مرتب ہو رہے ہیں۔محکمہ موسمیات کے پاس دستیاب اعداد وشمار کے مطابق مونسون موسم میں باراں کی مقدار میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ ارضیات کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اعدادو شمارسے پتہ چلتاہے کہ 1901سے2018کے دوران جموں وکشمیر میں برف کی مقدار میں نمایاں گراوٹ آئی ہے جبکہ اس مدت کے دوران سب سے زیادہ برف سال1931میں پڑی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ موسمی تبدیلی مستقبل میں کرہ ارض پر کسی بڑی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ موسم بہار جو سب موسموں میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا موسم ہے، اب یہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانوں سے رخصت ہو رہا ہے۔ شعبہ ارضیات کے محقق ڈاکٹر ہلال کا کہنا ہے’’کبھی ہمارے ہاں موسم بہار دو تین ماہ کا ہوتا تھا، اب دو تین ہفتوں کا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اب ہر موسم میں شدت ہوتی ہے گرمی ہوتو شدت کی گرمی ہوتی ہے، ایسے ہی سردی بھی شدت کی ہوتی ہے۔بارشیں ہوں تو سیلاب آتے ہیں حبس ہوتو انسانوں کی جان لے لیتی ہے۔دنیا بھر میںہونے والی موسمی شدت اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ کرہ ارض پر موسم تبدیل ہو رہا ہے‘‘۔