ذہنی صحت و نفسیاتی مسائل میں اضافہ، تخلیقی و تحقیقی مواقع کم میسر
سرینگر//دنیا بھر میں جب’’ورلڈ اسٹوڈنٹس ڈے‘‘(عالم یوم طلاب) علم، تخلیق اور نوجوانوں کی جدوجہد کو خراجِ تحسین کے طور پر منایا جا رہا ہے،جموںکشمیر کے طلبہ اب بھی متعدد تعلیمی، مالی اور نفسیاتی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جن کا براہِ راست اثر ان کی تعلیم اور زندگی پر پڑ رہا ہے۔جموںکشمیر میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کیلئے مالی دباؤ ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی ٹیوشن فیس، ہوسٹل کرایوں اور روزمرہ اخراجات میں اضافے نے کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلاب کیلئے تعلیم کو دن بدن مہنگا اور مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق دور دراز اور دیہی علاقوں میں مالی معاونت تک رسائی محدود ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔حالیہ سروے رپورٹس سے انکشاف ہوا ہے کہ وادی میں کالج اور یونیورسٹی سطح کے طلبہ میں ذہنی صحت کے مسائل میں تشویشناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک تازہ تحقیقی مطالعے (2025) کے مطابق ذہنی و تفسیاتی دبائو ، اضطراب اور تعلیمی دباؤ کے کیسوںمیں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ماہرین تعلیم کے مطابق موجودہ صورتحال میں طلبہ کے مسائل کو سمجھنا اور انہیں مرکزی حیثیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔محکمہ اعلیٰ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر میر ظفر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ذہنی دباؤ کم کرنے کیلئے باقاعدہ کونسلنگ سینٹرز، ہم عمری تعاون کے پروگرام اور تربیتی ورکشاپ شروع کیے جانے چاہئیں تاکہ طلبہ اپنی مشکلات کا بہتر طور پر سامنا کر سکیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کے ریسرچ اسکالر توحید لطیف راتھراور محمد عامر ملک کی ایک تحقیقی رپورٹ‘‘ایجوکیشن اِن جموں اینڈ کشمیر: ایشوز اینڈ چیلنجز‘‘ کے مطابق اگرچہ وادی میں اسکولوں میں داخلے کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہے، تاہم تعلیمی نظام اب بھی بنیادی ڈھانچے، تدریسی معیار اور طلبہ کی نفسیاتی بہبود کے لحاظ سے سنگین کمزوریوں کا شکار ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں خصوصاً دیہی علاقوں کے اسکولوں میں صاف پانی، مناسب بیت الخلاء ، فرنیچر، کشادہ کلاس روموں اور سائنسی لیبارٹریوں کی کمی بدستور موجود ہے۔ ایسے حالات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ توجہ مرکوز کرنے اور بہتر سیکھنے کے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ یوٹی کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں مضمون وار تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ فنڈنگ، رہنمائی اور تحقیقی ڈھانچے کی کمی کے سبب طلبہ کو تخلیقی تحقیق کے مواقع کم میسر ہیں، جس کا اثر نہ صرف علمی ترقی پر پڑتا ہے بلکہ روزگار کے امکانات بھی متاثر ہوتے ہیں۔تحقیقی رپورٹ میںحکومتی سطح پر بھی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے، دیہی علاقوں میں مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے، فنی و پیشہ ورانہ کورسز متعارف کرانے اور نصاب کو وقتاً فوقتاً جدید تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام اور بچیوں کے لیے علیحدہ تحقیقی و فنی ادارے قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ تعلیم میں صنفی شمولیت میں اضافہ ہو۔رپورٹ کے مطابق تعلیم صرف نصاب مکمل کرنے کا نام نہیں بلکہ طلبہ کو بااختیار بنانے، سوچنے، سوال کرنے اور معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کا ذریعہ ہونی چاہیے۔ وادی کے طلبہ کا پیغام بھی یہی ہے کہ وہ ہمدردی نہیں بلکہ موقع، سمجھ اور ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کی ذہنی و علمی نشوونما کو فروغ دے۔