بلال فرقانی
سرینگر// دنیا بھر کی طرح جموں و کشمیر میں بھی ہفتہ کویوم سیاحت منایا گیا، تاہم وادی میں یہ دن جشن کے بجائے فکرمندی اور مایوسی کے سائے میں گزر رہا ہے۔ رواں برس اپریل میں پہلگام میں پیش آئے واقعے نے کشمیر کی سیاحت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس حملے میں 26 سیاح فوت ہوئے، جس کے بعد نہ صرف پہلگام بلکہ وادی کے دیگر سیاحتی مقامات پر بھی سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اگرچہ انتظامیہ نے کچھ مقامات کو دوبارہ کھول دیا ہے اور اعتماد بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم زمینی صورتحال تاحال تشویشناک ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 میں جموں و کشمیر میں 2 کروڑ 35 لاکھ گھریلو اور 65 ہزار سے زائد غیر ملکی سیاحوں نے وادی کا رخ کیا۔ لیکن 2025 کے پہلے چھ مہینوں میں یہ تعداد گھٹ کر 95 لاکھ گھریلو اور صرف 19,570 غیر ملکی سیاحوں تک محدود رہ گئی ہے۔ سب سے زیادہ اثر پہلگام اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دیکھا گیا جہاں ہوٹلوں کی بکنگ میں 90 سے 95 فیصد تک کمی آئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق تقریباً 60 فیصد ایسے سیاح جنہوں نے مئی سے دسمبر 2025 کے درمیان کشمیر کا سفر طے کیا تھا، انہوں نے اپنے دورے منسوخ کر دیے۔سیاحت سے وابستہ مختلف شعبوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں کاروبار نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سجاد کرالیاری کا کہنا ہے،’’پہلگام واقعے کے بعد ہمیں بڑے پیمانے پر منسوخیاں دیکھنے کو ملیں۔ سیاح اب قیمت سے زیادہ سلامتی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ہمیں مستقل بنیادوں پر یقین دہانی اور مؤثر تشہیر کی ضرورت ہے، ورنہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔‘‘سرینگر میں واقع ڈل اور نگین جھیلوں پر قائم ہاؤس بوٹ مالکان بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ہاؤس بوٹ اونرز ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری محمد یعقوب دھون نے کہا،’’غیر ملکی سیاح نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہم ابھی کرونا کے بعد سنبھل ہی رہے تھے کہ پہلگام کے واقعے نے سب کچھ پھر سے بگاڑ دیا۔ اربن ٹریولز اینڈ ٹورز ایسوسی ایشن سے وابستہ جان محمد کا کہنا ہے کہ جن جگہوں پر ہفتے اور اتوار کو سیاحوں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی، اب ہوٹل ویران اور ٹیکسی ڈرائیور خالی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کاروبار کی لاگت اپنی جگہ ہے، لیکن آمدنی ندارد ہے۔پہلگام حملے کے بعد ہوائی سفر میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ستمبر کے پہلے دو ہفتوں میں صرف 9 ہزار کے قریب سیاحوں نے وادی کا رخ کیا، جو سال کے اس حصے میں غیر معمولی طور پر کم تعداد ہے۔سیاحت سے منسلک تمام طبقے ہوٹل مالکان، ٹریول ایجنٹس، ٹیکسی ڈرائیور،شکارہ بان، ٹور گائیڈز اور مقامی دکاندار حکومت سے فوری مداخلت اور ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی یومِ سیاحت صرف رسمی تقریبات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے منایا جانا چاہیے، تاکہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت کو از سرِ نو بحال کیا جا سکے۔اگرچہ حکومت کی جانب سے 12 سیاحتی مقامات کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے، تاہم سیاحت سے جڑے کارباریوں کا ماننا ہے کہ صرف سیکورٹی ہی کافی نہیں، بلکہ عوامی اعتماد کو بحال کرنے کیلئے بھرپور تشہیری مہم اور اقتصادی پیکج ناگزیر ہے۔