سرینگر//عالمی یوم ارض پروادی میںپلاسٹک کے استعمال، آبی ذخائر پر ناجائز قبضے،جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو اور شہری علاقوں میں اندھادھند تعمیراتی عمل کو ماحول کے بگاڑ کی وجہ قرار دیتے ہوئے ماہرین نے ماحولیات مخالف سرگرمیوں پر روک لگانے کی وکالت کی۔امسال عالمی سطح پر یوم ارض’’پلاسٹک پلیوشن ختم کرئو‘‘ کے موضوع کے تحت منایا جائے گا۔یوم الارض 22پریل 1970سے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا تا ہے تاکہ عوام میں زمین کے قدرتی ماحول کے بارے میں شعور بیدار کیا جاسکے۔اس دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کے 175 رکن ممالک بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ خطہ ارضی کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھا جا سکے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے استعمال سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،تاہم متعلقہ محکمہ جات اور انتظامیہ پابندی عائد کرنے کے باوجود اس کو زمینی سطح پر عملانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ریاست میں اگر چہ گزشتہ دس برسوں سے پالیتھین پر پابندی عائد ہے، تاہم زمینی سطح پر اس قانون کی عدم تعمیل کی وجہ سے ماحولیات پر نا قابل بیان اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ریاستی ہائی کورٹ نے کئی بار پالھتین پر پابندی عائد کی ہے،اور اس کو عملانے کی بھی واضح ہدایت دی ہے۔ عدالت عالیہ کی طرف سے بار با ہدایات کے بعد محکمہ جنگلات نے SRO-182 محرر18جون 2008 جموں کشمیر کے حدود میں پالیتھین پر پابندی عائد کی،تاہم زمینی سطح پر یہ مہم بہت جلد ہی دم توڑ گئی۔ذرائع کے مطابق نومبر2013 میں جسٹس محمد یعقوب میر اور جسٹس مظفر حسین عطار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے پالیتھین کے استعمال پر زبردست برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پر پابندی عائد کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ادھر محمد یوسف تاریگامی کی سربراہی والی اسمبلی ماحولیاتی کمیٹی نے بھی2013میں جموں کشمیر میں پالیتھین پر مکمل پابندی عائد کرنے کی سفارش کی۔ محکمہ جنگلات نے فروری2017میں SRO-182 محرر18جون 2008 کی رئو سے SRO-45 جاری کیا اور ایک مرتبہ پھر پالی تھین پر پابندی عائد کی گئی،جبکہ پالیتھین کو تیار کرنے،زخیرہ کرنے،تقسیم کاری کے علاوہ پالیتھین کے استعمال،فروخت پلاسٹک شیٹوں جیسے پلاسٹک سے بنائے گئے کور،پیکنگ پر بھی جموں کشمیر کے حدود میں پابندی عائد کی۔ روال سال کے اوائل میں ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر نے تمام تحصیلداروں کو عدالتی احکامات کو عملانے کی ہدایت دی،جبکہ جوائنٹ کمشنر سرینگر مونسپل کارپوریشن اور تحصلیداروں کو روزانہ بنیادوں پر اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ انتظامیہ اور عدالتی سطح پر ہدایات کے باوجود فی الوقت بڑے پیمانے پر وادی میں پالیتھین کا استعمال جاری ہے۔پلاسٹک کی تھیلیوں کے جا بجا ڈھیر کسی بھی معاشرے کے ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ زمین پر موجود ہر ذی روح پر پڑتا ہے۔ اس کے نقصانات بے شمار اور فوائد صرف چند ایک ہیں۔ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوںکو زمین میں مکمل جذب ہونے کے لیے نو سو سے ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ وزن میں بے حد ہلکی ہونے کے باعث دور تک پھیل کر ماحول پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتی ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارض سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل احمد رمشو کا کہنا ہے کہ کشمیر کی ماحولیات پر بھی پلاسٹک کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹھوس کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کاکا انتظام موجود نہیں ہے،جس کی وجہ سئے صورتحال اور بھی تشویشناک ہے۔انہوں نے کہا’’ سرینگر میں اچھن کی جگہ اب ختم ہوچکی ہے،اور کوئی بھی نئی جگہ نہیں بنائی گئی،جس کی وجہ سے پلاسٹک اور پالیتھین ایک بڑا چلینج بن چکا ہے‘‘ ۔رامشو نے کہا کہ دریائے جہلم کے دونوں کناروں اور سرینگر کے علاوہ قصبہ جات میں بڑے پیمانے پر پالیتھین اور پلاسٹک کا استعمال کیا جاتا ہے،اور اس کو ایک جگہ جمع کرنے اورٹھکانے لگانے کیلئے کوئی بھی انتظام نہیں ہے،تاکہ اس کو دوبارہ استعمال میں لایا جاسکے۔ شکیل رامشو نے کہا کہ آبی ذخائر اور ندی نالو کے علاوہ دریائے جہلم میں پلاسٹک کی بڑی مقدار سے پانی کے بائو میں رکاوتیں کھڑی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا جموں کشمیر بالخصوص وادی میں گزشتہ25برسوں سے آبی ذخائر پر ناجائز قبضے اور جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو کی وجہ سے یہاں کے ماحول کو بہت نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ دریائے جہلم کے دونوں کناروں کو بھیکوڑے کرکٹ سے لبریز کیا گیا جس کی وجہ سے آبی آلودگی پیدا ہوئی ۔پروفیسر رامشو نے کہاکہ گاڑیوں کی بڑھتی تعداد سے صوتی آلودگی اور صحت افزا مقامات پر گندگی و غلاظت کے ڈھیر جمع ہونے کے علاوہ لاتعداد لوگوں کے جمع ہونے سے بھی گلیشر پگھلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں اندھادھند اور بے ترتیب تعمیراتی عمل سے بھی یہاں کے ماحیولیات کو زک پہنچ گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ دیگر ریاستوں اور خطوں میں صنعتوں کی جس بھر مار سے ماحولیات میںسب سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے قسمت سے ابھی تک کشمیر اس سے بچا ہوا ہے۔بیرون ریاست یونیورسٹی میں تعینات ماہر ماحولیات ڈاکٹر شبیر احمدنے مزید کہا کہ ماحول میں آلودگی کے ساتھ ہی موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے2014میں آئے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ1903کے بعد 1950 میں بھی برے اور تباہ کن سیلاب آئے تاہم ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور گزشتہ سیلاب کے دوران حکومت نے از خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ایک لاکھ کروڑ کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ آپ ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرو گے تو ماحول بھی اپنا ردعمل دکھا کر آپ کے ساتھ برا برتاو کرئے گا۔عالمی یوم ارض منانے کی روایت کو2020 میں نصف صدی مکمل ہوجائے گی، لیکن زمین کے وجود کو لاحق خطرات ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر شبیر احمد راتھر نے بتایا کہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہوس زر اور پرتعیش زندگی کے حصول کے لیے کی جانے والی منفی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں گرین ہائوس گیسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ مسلسل جاری ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔