شہاب حمزہ
ہندوستان اپنی بے شمار خوبیوں کے ساتھ عالم انسان میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ اس کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ زبانوں کا ملک ہے ۔ یہاں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں یہاں کی فضاؤں میں نہ جانے کتنی زبانیں پروان چڑھی ،ترقی کے منازل طے کئے،پھر دم توڑ کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں ۔ وید اپنیشد اور دیگر کئی ہندو مذہبی صحیفے سنسکرت زبان میں دستیاب ہونے کے باوجود آج ہندو مذہب کے سو کروڑ سے زائد آبادی ہونے کے باوجود اس زبان میں گفتگو کرنے والا ایک بھی فرد اس روئے زمین میں موجود نہیں ہے جبکہ کسی دور میں یہ ہمارے ملک کی عوامی اور مقبول زبان تھی ۔ لیکن آج اس کی حالت کیا ہے ۔ سنسکرت کے علاوی دیگر کئی زبانوں کے زوال کی داستان چند روز میں تحریر نہیں کی گئی بلکہ اس میں زمانے لگے۔ انگریزوں کے دور حکومت تک اردو ہندوستان کی مقبول ترین زبان رہی ،عوامی رابطے کی زبان رہی ۔ ملک کی آزادی کے ساتھ جہاں یہ پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل کرگئی وہیں ہندوستان کی دوسری سرکاری زبان بنی ۔ آزاد ہندوستان میں روزِ اول سے ہی سرکاری سطح پر اردو کے استحصال کا آغاز ہوا اور وقت کے ساتھ جس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا ۔ ہر ایک نئے دن میں اردو کو کچلنے کے لیے نئے نسخے ایجاد ہوتے رہے اور اس زبان پر ستم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے ۔ آج اردو والے بڑے ہی شان کے ساتھ اردو کو عالمی زبان کہتے ہیں۔آپ ضرور کہیں، آپ کا حق ہے ۔ لیکن ذرا غور کریں جس ملک میں یہ زبان پیدا ہوئی ،پرورش پائی اور ارتقائی سفر طے کر کے ترقی کی منزل تک پہنچی ،وہاں قومی سطح کے علاوہ کئی ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ اس کے باوجود ملک میں اردو کا کیا حال ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ آئے دن یہ خبریں آتی ہیں کہ آج فلاں ریاست میں انٹرمیڈیٹ سے اردو ہٹا دی گئی ، اسکولوں میں اردو کی کتابوں کی دستیابی روک دی گئی ، اردو اساتذہ کی بحالی کم کر دی گئی یا بند کر دی گئی ، اسکول کالج یونیورسٹی گویا ہر سطح پر اردو ٹیچرز کی بحالی خالی عہدوں کو پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے ۔ملک بھر میں اردو کے اقلیتی اسکول اور ایڈ حاصل شدہ اداروں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ یہ تو ملک میں اردو کی حالت ہے جہاں اردو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ بیرون ملک میں جہاں اردو کے محض چند ادارے ہیں، یہاں خال خال مشاعروں کی محفلیں سجتی ہیں، جہاں اردو کے نام پر چند دیگر پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر ہم اردو کو عالمی زبان کہنے کا فخر حاصل کرتے ہیں ۔ان بیرون ملکوں میں کیا سرکاری سطح پر اردو کی کوئی شناخت ہے ،کیا اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، کیا ان ملکوں کے حکومتیں سرکاری سطح پر اردو کے فروغ و اشاعت کے لیے کوشاں ہیں؟جب جواب صرف یہ ہے کہ ہرگز نہیں، تو کیا دنیا کی مختلف ملکوں اور شہروں میں منعقد کیے جانے والے مشاعروں اور چند دیگر پروگرام کی بنیاد پر اُردو کا عالمی زبان کہنے کی ہم خوش فہمی پال رہے ہیں ۔ آج ہمارے ملک ہندوستان میں اردو زبان اپنی حالت زار پر آنسو بہا رہی ہے، اپنے وجود کو خطرے میں دیکھ کر اشکبار ہے۔ اپنوں کی بے توجہی دیکھ کر اردو کی روح سسکیاں لے رہی ہے۔ ایک بہت اہم اور کڑوی سچائی یہ ہے کہ پہلے اردو والوں نے اردو کے ساتھ نا زیبا سلوک کیا، پہلے ہم نے اردو کو چھوڑا ، پہلے ہم نے اردو کو مٹانے کی کوشش کی ، پہلے ہم نے اردو کے عدم محبت کے ثبوت پیش کر کے حکومتوں کو حوصلہ دیا کہ وہ اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کریں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ اردو کے کئی رسالے بند ہو گئے ،کئی اخباروں نے اپنوں کی بے توجہی اور عدم محبت کے سائے میں دم توڑ دیا تو ملک کے کئی اخبارات مستقل خاموشی اختیار کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔یہ سب ہماری بے توجہی کا نتیجہ ہے ۔بلاشبہ زبان کو کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے لیکن میں یہ بہت دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاست نے اردو زبان کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ملک کی آزادی کے ساتھ ہی یہ کام شروع کیا گیا اور رفتہ رفتہ اردو کو مسلمان بنا دیا گیا ۔ اور یہ مان لینے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ مسلمانوں کے مذہبی بے شمار کتابیں قران کی تفسیر و ترجمہ یا احادیث وہ اسلامیات کے نسخے اور اسلاف کے کارناموں کے بے شمار کتابیں اردو زبان میں دستیاب ہے۔ جب کہ کسی دوسرے مذہب کا کوئی اہم نسخہ یا اہم کتاب اردو زبان میں ہرگز نہیں ۔کم از کم ہندوستان میں اردو زبان مسلمانوں سے زیادہ وابستہ ہے ۔ آج ہمارے اخبار اور رسائل دم توڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں خرید کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ بینگلور میں میری اہلیہ کا چھوٹا بھائی رہتا ہے، کام والی ہر روز صبح ان کے یہاں دو مقامیزبان کے اخبار لے کر کام کرنے آتی تھی ۔ ایک دن میں نے پوچھا ،آپ اخبار کب پڑھتی ہیں ۔جواب سن کے میں حیران رہ گیا کہ اس خاتون نے کہا کہ مجھے پڑھنا نہیں اور نہ ہی میرے گھر میں کوئی اخبار پڑھنے والا ہے ۔ میں تو اخبار اس لیے لیتی ہوں کہ اپنی زبان کی پرورش کر سکوں، میں اپنی زبان کا حق ادا کر سکوں ۔ اردو زبان والے اور خاص طور پر مسلمان ذرا غور کریں کہ ہم اردو کے کتنے اخبارات اور رسائل خریدتے ہیں ۔ اردو زبان پڑھنے ،جاننے اور سمجھنے کے باوجود بھی بہت کم ایسے گھر ملتے ہیں جہاں اردو کے اخبار و رسائل خریدے جاتے ہیں ۔ موجودہ ہندوستان میں اردو کے اخبار اور رسائل نکالنے والے یہ چند لوگ یقینی طور پر اردو زبان اور مسلمانوں پر احسان کر رہے ہیں ۔ ہماری بے شمار مذہبی کتابیں اردو زبان میں دستیاب ہیں، اگر ہماری جانب سے اردو کے تئیں ایسا ہی رویہ مستقل طور پر اختیار رہا تو یقین جانیں ہماری آنے والی نسلیں شعری، ادبی اور دینی بے شمار اہم کتابوں سے محروم رہ جائیں گی ۔ اب تک اردو کا جتنا ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے، اگر ہم اسے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہیں تو کسی قیمت پر ہم نہیں کر سکتے ۔ آج عالمی یوم اردو کے اس ماحول میں آئیے ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اردو کو نئی زندگی عطا کرنے کے لیے ایک مشترکہ کوشش کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں شعری ادبی اور دینی ذخیرے سے محروم نہ رہے ۔
(رابطہ۔8340349807)
[email protected]