بلال فرقانی
سرینگر//دنیاپیر کو عالمی یومِ شماریات منارہی ہے مگر کشمیر میں یہ دن اعداد کے نہیں، احساس کے معنی لیے ہوتا ہے۔ یہاں ہر عدد کے پیچھے ایک چہرہ ہے، ہر فیصد کے پیچھے ایک کہانی۔ اعداد و شمار ترقی کے پیمانے ضرور ہیں، لیکن وادی کے لوگ جانتے ہیں کہ اصل حقیقت کبھی خانوں میں بند نہیں کی جا سکتی۔پلوامہ کے ارشاد احمد نامی باغبان برسوں سے موسم کے مزاج کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’اب نہ برف وقت پر گرتی ہے، نہ بہار پہچانی جاتی ہے۔ اگر حکومت دس سال کا درست ڈیٹا دکھائے تو شاید انہیں بھی یقین آجائے کہ زمین بدل چکی ہے۔‘‘ماہرین ماحولیات کے مطابق جنوبی کشمیر میں درجہ حرارت میں2 ڈگری سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، لیکن موسم کی تبدیلی کے درست اعداد نہ ہونے کے سبب پالیسیاں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔اسی طرح نوجوان طبقہ بھی اعداد کی خاموش فہرستوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ سرینگر کی انشا میر، جو ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویٹ ہیں، کہتی ہیں’’جب بے روزگاری کو گنا ہی نہیں جاتا تو اس کا حل کیسے نکلے گا؟ ہم ڈیجیٹل دنیا کا حصہ ہیں، مگر خود ڈیٹا میں غائب ہیں۔‘‘سیاحت کے میدان میں بھی یہی کہانی ہے۔ جب لاکھوں سیاحوں کے آنے کی خبریں آتی ہیں تو حکومت خوشی سے اعداد پیش کرتی ہے، مگر گلمرگ اور پہلگام کے چھوٹے ہوٹل مالکان کا حال ان اعداد سے مختلف ہوتا ہے۔ ہلال ڈار، نامی ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک کہتے ہیں’’یہ اعداد نہیں بتاتے کہ کتنا فائدہ کس کو ہوا۔ سڑک بند ہو یا موسم خراب، حساب الٹ جاتا ہے۔‘‘سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ترقیاتی اسکیموں، سڑکوں اور بجٹ کے اعداد ضرور ہیں، مگر انسانی دکھ، ہجرت، نفسیاتی دباؤ اور معاشرتی زوال کا کوئی شمار نہیں۔سماجی ماہر ڈاکٹر رخسانہ خان کا کہنا ہے اچھے اعداد وہ ہوتے ہیں جو رحم دل ہوں، جو دکھ کو ماپ سکیں۔ ہمیں صرف حساب نہیں، احساس بھی چاہیے۔’‘‘ان کا کہنا تھا کہ عالمی یومِ شماریات پر کشمیر کا پیغام واضح ہے — اعداد و شمار صرف رپورٹ نہ بنیں بلکہ سچائی کا عکاس ہوں۔ پہاڑوں سے لے کر وادی کے دامن تک، درست ڈیٹا نہ صرف ترقی بلکہ بقا کا زینہ بن سکتا ہے۔ یہاں ہر عدد ایک کہانی ہے، اگر ہم سننا چاہیں۔