سرینگر// دنیا بھر میں8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کے دوران اس بات کا تجدید عہدکیا جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہر صورت میں عمل میں لایا جائے گا۔امسال دنیا بھر میں6مارچ سے10مارچ تک خواتین کا عالمی ہفتہ بھی منایا جا رہا ہے۔صنف نازک کے حقوق کی نگہبانی کا عزم دہرانا اب ایک روایت بن چکا ہے۔اس دن کی مناسبت کے حوالے سے اگر ہم ریاست جموں و کشمیر کا تجزیہ کریں تو فقط مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ 3 برسوں کے دوران جہیز سے جڑے معاملات کی وجہ سے 15افراد کی جان چلی گئی۔پولیس ذرائع کے مطابق 2014کے دوران 5اور 2015کے دوران 6جبکہ سال گزشتہ کے دوران 4ایسے معاملات سامنے آئے جن میں اموات ہوئیں۔ان15 ہلاکتوںکے سلسلے میں 41افرادکو گرفتا ر کیاگیاجو جہیز کا مطالبہ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق 2014سے 2016کے درمیان جہیز کے معاملے پر 312خواتین کوخودکشی کرنے پر مجبور کیاگیاجس پر پولیس نے 361افراد کو گرفتار کیا۔ریاست میں صنف نازک کا خوف کے سائے میں زندگی گزارنے کی تصویر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ7برسوںکے دوران خواتین پر گھریلو تشدد کے4ہزار کے قریب کیس سامنے آئے ہیںجس کی پاداش میں 5ہزار افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموںو کشمیر میں خواتین پر گھریلو تشدد میں اضافے کا گراف بتدریج بڑ ھ رہا ہے اور صنف نازک کو خوف و گھٹن کے ماحول میں رہنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں حال ہی میں دل دہلانے والا واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک خاتون کے اہل خانہ نے اس کے سسرال والوں بالخصوص خاوند پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے افروزہ نامی اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچی کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا جبکہ2015میں بھی سرینگر کے خانیار علاقے میں ایک خاتون کو عید کے روز زندہ جلانے کا واقعہ سامنے آیا ۔ذرائع کے مطابق جموں کشمیر میںگزشتہ7برسوںکے دوران مجموعی طور پر خواتین کو گھریلو تشدد بنانے کے3ہزار960کیس سامنے آئے جس میں5ہزار150 افراد کوخواتین پرتشدد کا شکار بنانے پر گرفتار بھی کیا گیا۔ریاست میں مجموعی طور پر 2015میں571ایسے کیس سامنے آئے اور پولیس نے1127افراد کو حراست میں لیا۔اسی طرح 2016میں گھریلو تشدد کے422کیس سامنے آئے جن میں 583افرادکو ملوث قرار دیکرحراست میں لیاگیا۔وادی میں850 افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ جموں میں ایسے افراد کی تعداد3ہزار300ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع سرینگر میں خواتین کو گھریلوتشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف گزشتہ7برسوں کے دوران مجموعی طور پر387کیسوں کا اندراج کیا گیا جبکہ وسطی ضلع بڈگام میں31 اورضلع گاندربل میں32کیس درج کئے گئے ۔اعدادو شمار کے مطابق جنوبی ضلع پلوامہ میںخواتین کے خلاف گھریلوتشدد کی پاداش میں31کیس درج کئے گئے ،ضلع شوپیاں میں24، ضلع کولگام میں18اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں79کیسوں کا اندراج کیا گیا ۔سرحدی ضلع کپوارہ میں اس سلسلے میں64کیس درج ہوئے،ضلع بانڈی پورہ میں24اور ضلع بارہمولہ میں105کیس درج کئے گئے۔ خطہ لداخ میں ضلع کرگل میں4جبکہ لیہہ میں ایک کیس درج کیا گیا۔ضلع جموں میں638،ضلع سانبا میں51، پونچھ میں135کے علاوہ راجوری میں40 کیسوں کا اندراج کیا گیا۔ ضلع ریاسی میں45کی ،ضلع ادھمپور میں148، ضلع ڈوڈہ میں335 کیسوں کا اندراج کیا گیا۔ضلع کشتواڑ میں76 اور رام بن میں58کیسوں کا اندراج کیا گیا۔ماہرین سماجیات کا ماننا ہے کہ ریاست میں بالخصوص وادی میں خواتین کے خلاف تشدد کا کئی سیاسی اورسماجی پہلو بھی ہیں جس میں شورش بھی شامل ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سماجیات کے پروفیسر پیرزادہ محمد امین نے کشمیر عظمیٰ بتایا کہ شورش کے دوران کریک ڈائون،چھاپوں،ہلاکتوں اور دیگر رونما ہونے والے واقعات سے لوگ نفسیاتی طور پر توازن برقرار نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔پروفیسر امین کا ماننا ہے کہ2دہائیوں سے ہر جگہ سماج تبدیل ہو رہا ہے اور اس کے اثرات براہ راست ہماری ریاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔موجودہ دور میں مادیت کو خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ہمارا سماج خواتین سے نوکریاں بھی کرانا چاہتا ہے اور پھر گھروں میں انکی کھال بھی کھینچی جاتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو مذہب میں بھی اپنے حقوق ہے اور ان حقوق کوسلب کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔پروفیسر امین نے کہا کہ ایک طرف ہمارا سماج خود کو جدید سماج کی چال ڈھال میںڈالنا چاہتا ہے اور دوسری طرف خواتین کو بہتر سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔انہوںنے کہا کہ سرکاری محکموں اور اداروں بشمول سیول سیکریٹریٹ میں اب تک خواتین کیلئے چائلڈ کیر سنیٹر اور ’’نرسنگ مدر‘‘ کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔