جبیں نازاؔں
پچھلے ایک عشرے سے دنیا بھر میںمیڈیا پہ حکمراں طبقے کی گرفت کاشد و مدسے شور وغوغا بلند ہے ۔یہ سلسلہ ایک دم رو نما نہیں ہوا، کیوں کہ وقت نے اس کی برسوں سے پرورش کی ہے ۔ تبھی آج ہمیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ جمہوری ممالک نے اس ‘چوتھے ستون کو جِلدی رنگ کے تنگ لباس پہنا کر باحیا اور با وقار بنانے کی کوشش کی تھیں، آج اس نے یہ لباس اُتار پھینکا کہ عریاں لباس پہننے سے کیا فائدہ؟ کہ جہاں بنام ستر پوشی عریانیت دکھا ئی جارہی ہے _ ۔ اس سے بہتر کہ عریاں جسم دیکھایا جائے _ چوں کہ عوام کا ایک مخصوص طبقہ عریانیت پسند ہوچکی ہے ۔لہٰذا حکومت ان مخصوص طبقے کی پسند، نظریات ومفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا اپناایمان ،دھرم سمجھنے لگی ، لہٰذا جمہوریت کا یہ ’’چوتھا ستون ‘‘ درباری ڈھول بن کر رہ گیا ۔خبروں کے ذرائع عوام کو خبریں نہیں سنا رہے ہیں بلکہ پروپگنڈہ کی مہم چلارہے ہیں ۔گویا کہ صحافی نئی صدی میں پرانے عہد کے ‘درباری ،مدح خواں بن گئے۔ اس میڈیا کو عرف عام میںپالتو میڈیا کہا جانے لگا اور یہ پالتو میڈیا امریکہ جیسے ترقی یافتہ جمہوریت نواز ، حق رائے آزادی کا علمبردار کہنے اور جتانے والے ملک میں بھی پایا جاتا ہے ۔یہی وجہ کہ ماضی قریب میں ہوئے ایک سروے نے انکشاف کیا کہ امریکہ جیسے ملک میں ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کی عمر ساٹھ سے تجاوز ہے ۔نئ نسل بیس سے چالیس سال عمر کے افراد ٹیلی ویژن اور اخبارات سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔
ایک دَور تھا کہ لوگ ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے نہایت شوق سے بیٹھا کرتے تھے ، چوں کہ روزناموں میں چوبیس گھنٹے قبل کی خبریں ہوا کرتی تھیں، ٹیلی ویژن سیٹ پر تازہ بہ تازہ خبریں ملا جایاکرتی تھیں، کسی بڑے حادثات یا سانحات براہِ راست دکھائے جانے کا اہتمام و التزام ہوا کرتا تھا، روزنامے ، صبح نامے، شام نامے مذکورہ خبریں مقررہ وقت پیش کرنے کا پابند ہوا کرتا تھا ۔باوجود اس کے اخبار کی اہمیت ختم نہیں ہوئی تھی ، چوں کہ اخبارات واقعات کے منظر ، پس منظر بیان کیا کرتے تھے ۔لیکن 2000ء کے بعد رفتہ رفتہ صورت حال بدلنا شروع ہوئی اور پروپگنڈا ، یا ‘گْن گان‘ کہہ لیں، کی ابتدا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر چند عالمی خبریں ملاحظہ فرمائیں ۔ جو بعد میں بالکل جھوٹ ثابت ہوئیں ۔عراق میں نیوکلیر ہتھیار ہونے کی خبریں پھیلا کر عراق پر حملہ کیا جانا، نائن الیون کو جواز بنا کر عراق کی طرح افغانستان کو تہس نہس کرنا ، فروری 27فروری 2002ء گجرات کے گودھراریلوے اسٹیشن پر ایکسپریس ٹرین کی ایک بوگی میں آگ لگانا ، جس کے نتیجہ منظمطور پر گجرات فساد برپا ہونا، جس میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، جانچ کمیٹی حکومت کے زیر اثر جانچ کرتی رہی اور جانچ رپورٹ حکومت کی منشا کے مطابق آئی ، لیکن جب ریلوے وزیر لالو پرساد یادو بنائے گئے،انھوں نے دوبارہ منصفانہ جانچ کروائی تو یہ خلاصہ ہوا کہ ٹرین کی بوگی میں آگ باہر سے نہیں اندر سے لگائی گئی تھی ۔7 اکتوبر 2023ء حماس کا اسرائیل پر حملے کو بہانہ بنا کر شمالی غزہ اور لبنان کو کھنڈر میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔جب کہ عراق میں نہ ہتھیار دستیاب ہوئے ، افغانستان میں امریکہ حواریوں کا حملہ بھی ناکام ثابت ہوا ، نہ ملَا عمر گرفتار ہوسکے اور نہ اسامہ بن لادن باز یافت ہوسکے ، اسامہ بن لادن کی یہ بات سچ ثابت ہوئی جو انھوں نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی ، امریکہ کی کامیابی یہ ہے کہ وہ مجھے زندہ گرفتار کرے! میرا چلینج ہے امریکہ مجھے کبھی بھی زندہ گرفتار نہیں کرسکتا ۔اور پھر وہی ہوا ۔امریکہ پر اسامہ کا بھوت ایسا سوار تھا کہ اس نے ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا اور اس کی بھنک تک پاکستان کی افواج کو نہ لگنے دی۔امریکہ بالآخر تھک ہار کر افغانستان سے نکل پڑا _۔آخر الذکر نصف صدی اسرائیل کے ظلم و تشدد کا نتیجہ تھا حماس کے ‘ردعمل کو اسرائیل اور امریکہ نوازوں نے دہشت گردانہ حملہ قراردیا ، جب کہ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری گوئتریس نے اسرائیل و امریکہ کے’بہتان‘ کو ماننے سے صاف انکار کردیا ۔
امریکہ اور اس کے حواری ممالک اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ حقوق حیوانات کے ٹھیکیدار ممالک یہ بھول رہے ہیں کہ تاریخ تمام سانحات و واقعات اپنے دامن میں سمیٹ رہی ہے۔ تاریخ نے جس طرح ہٹلر کو معاف نہیں کیا ، ویسے ہی انھیں بھی معاف نہیں کرے گی۔ امریکہ کا منافقانہ کردار مشرق وسطیٰ سمیتدیگر ممالک کےلیے نہایت تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔حق رائے کی آزادی صرف اپنے عزیزوں کے لیےہے؟ اسرائیل اب تک غزہ،فلسطین و لبنان میں تقریباً ۴۵؍ہزار معصوم شہریوں کو ہلاک کرچکا ہے ،بیس لاکھ شہریوں کو بے گھر کرچکا ہے،ظلم وبربریت کی تمام حدیں عبور کرچکا ہے، تب بھی امریکہ،برطانیہ ،جاپاناور دیگرکئی یورپی ممالک سمیت عرب دنیاخاموش بیٹھی ہوئی ہے۔جس طرح غزہ کی ناکہ بندی امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے سے کروائی ہے ، اس طرح تو ہٹلر نے بھی’’ ہولو کاسٹ‘‘ میں نہیں کیا تھا ۔جب کہ اس وقت دنیا ترقی یافتہ نہیں تھی۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے ، امریکہ و اسرائیل ترقی یافتہ ممالک کے تعلیم یافتہ مہذب حکمراں ہیں؟خبر پہنچانے والے اداروں پر زبردست پابندیاں عائد ہیں۔ ایک سو سے زائد صحافیوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا جاچکا ہے ۔اسرائیل پوری دنیا سے نہیں اپنے شہریوں سے بھی اپنے نقصانات چھپارہا ہے ۔ میڈیا سنسر کا نقاب اوڑھا کر بیٹھادیا گیا ہے ۔جنھوں نے سوشل سائٹس، وغیرہ کو متبادل کی صورت غیر جانبداری صحافت کے لیے استعمال کررکھا ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے یہ ذرائع بھی صاف وشفاف آئینہ نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ عصبیت میں شدت پسندی درآئی ہے۔شدت پسندی کے رجحان نے ہر خطے کے اکثریت کو جنونی بنادیاہے۔ ( خواہ مذہبی عصبیت کی شدت پسندی ہو، علاقائی عصبیت کی شدت پسندی، لسانی عصبیت کی شدت پسندی، نسلی عصبیت کی شدت پسندی وغیرہ )اقلیتی طبقہ سہما سہما سا ہے ۔
عنقریب امریکہ میں صدارتی انتخاب ہورہے ہیں ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین مقابلہ ہے۔ دونوں کی اشتہاری مہم زوروں پر ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے پچھلےہفتے تین گھنٹے انٹرویو دیا۔ لیکن کسی اخبار اور ٹیلی ویژن چینل کو نہیں بلکہ جیو روگن کے پوڈ کاسٹ، پر جسے تین کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں نے دیکھا تھا، جو اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے ۔
اتنی بڑی تعداد میں یہ انٹرویو ٹیلی ویژن سیٹ پر دیکھنا ناممکن تھا۔اسی طرح کملا ہیرس نے بھی ’’کال ہیئر ڈیڈی‘‘ پوڈکاسٹ ، شیڈ روم پلیٹ فارم وغیرہ پر انٹرویو دیا ان کے فالورز کی تعداد ٹرمپ سے کچھ کم نہ تھی ۔کیا ٹیلی ویژن سیٹ اور اخبارات کے دن ختم ہوچکے ہیں؟ اس انٹرویونے وضاحت کردی کہ صحافت اب نئے راستے ڈھونڈ چکی ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ اس راہ پہ مسافروں کی آمد ورفت کتنی مؤثر اور دیر پا ہو گی اور یہ رجحان صرف امریکہ میں ہی نہیں ہمارے ملک بھی پایا جارہا ہے۔ اخبار اور ٹیلی ویژن چینل اپنا یوٹیوب چینل بھی چلارہے ہیںکیوں کہ اخبار کے قارئین ، ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعداد لگاتار گھٹ رہی ہے ۔
درباری ٹی وی چینلز کے وہ تمام صحافی جنھوں نے ‘چاکری ‘پسند نہیں کی، یوٹیوب چینل پر غیر جانبداری صحافت کی ذمے داری دیانت داری سے نبھارہے ہیں ۔ ان کے ناظرین کئی ملین میں ہیں _ ۔دوسری طرف پوڈ کاسٹ وغیرہ پلیٹ فارم کی طرف ہندوستانی عوام بھی دلچسپی دکھا رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ڈیجٹل پلیٹ فارمز کی مانند پوڈ کاسٹ کا چلن ہمارے یہاں بھی عام ہوگا۔
[email protected]