ایس معشوق احمد
صاحبو! ہمارے ہاں عجیب وبا پھیلی ہے کہ ہر اس طفل مکتب کے نام کے ساتھ عالمی شہرت یافتہ کا سابقہ لگایا جاتا ہے جسے اپنے نام کا املا درست لکھنے میں بھی دشواری آتی ہے۔اس آفت کے سبب صبح لکھنےکی شروعات کرنے والے شام تک عالمی شہرت یافتہ لکھاری بن جاتے ہیں۔ ہر وہ قلمکار عالمی شہرت یافتہ کہلاتا ہے جس کو گوالا ، نانبائی اور نکڑ کا دوکاندار شکل سے تو پہچانتے ہیں کہ وہ ان سے روز دودھ ، روٹی اور ضروری سودا سلف نقدی خرید لیتا ہے کہ ادھار وہ اس لئے نہیں دیتے کہ وہ اسے نہیں جانتے ۔ عالمی شہرت یافتہ ہونا آسان ہے۔ اپنی گلی میں تصویر لی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ دوست مختلف ممالک کے قانونی شہری ہیں سو جواز بنا کہ شخص مذکور عالمی شہرت یافتہ ہے۔عالمی شہرت یافتہ کہلانا جرم ہرگز نہیں اور نہ ہمیں پورے عالم میں مشہور شخصیات سے بیر ہے۔عالمی شہرت یافتہ شخصیت کے لئے ضروری ہے کہ انہوں نے عالمی سطح کے کارنامے بھی انجام دئیے ہوں۔کسی نے غالب کی غزل چرا کر اپنے نام سے چھاپی تو ادبی بدیانتی کرنے والا عالمی شہرت یافتہ شعراء میں شمار ہوا۔ مردوں کے بجائے خواتین کو شہرت کی طلب زیادہ ہوتی ہے اور وہ شہرت کے زینے جلد طے کرنا چاہتی ہیں سو شہرت کو پانے کے لئے شہوت کا نشانہ بننے کو تیار ہوجاتی ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ نیک کام اور عمدہ سخن کی شہرت اچھی ہے لیکن عورت برہنہ ہوجائے تو شہرت گالی بن جاتی ہے۔
وہ متشاعر بھی عالمی شہرت یافتہ کہلاتے ہیں جو ایک عرصے سے ایسے اشعار لکھ رہے ہیں جو معیار سے گرے ہوئے ،وزن سے عاری ، زبان و بیان سے ناقص اور پیغام سے مفلس ہوتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ غیر معیاری اور بے وزن شعر کہنا اتنا بڑا جرم نہیں کہ اس پر آپ کو پھانسی یا جیل ہوجائے۔مرزا کی زبانی خوش خبری سن کر عالمی شہرت یافتہ کہلانے کے چکر میں ہم نے دل کا غبار نکالنے کے لئے شعر موزوں کرنے کی کوششیں تیز کیں لیکن مشاعروں تک رسائی نہ ہوپائی کہ سفارش اور تعلقات اس لیول کے نہیں تھے کہ کسی بڑے اسٹیچ پر اپنے اشعار سنا کر عالمی شہرت یافتہ کی سند پاتے اور اپنے لئے تالیوں اور منتظمین کے لئے گالیوں کا انتظام کرپاتے۔ شہرت کی سند اور مشاعروں میں بے وزن اشعار سنانے کا حق صرف بناؤ سنگھار کی ہوئی خوبصورت شاعرات کو ہے جن کے اشعار بے وزن ہوں تو ہوں لیکن ادائیں باوزن اور کپڑے ہلکے ہوں ۔
چاروں طرف عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کے چرچے ہوئے تو چند احباب نے مل کر ہمیں بھی عالمی شہرت یافتہ ادیب کا خطاب دے دیا۔ہوا یوں کہ جس روز ہم عالم بالا سے دھرتی کے سفیر بنے یار لوگوں نے اس دن کو ہماری پیدائش کے طور منایا اور دو ایک ادبی انجمنوں نے ہمیں اس کارنامے پر مبارک باد دی اور ہمیں عالمی شہرت یافتہ قلمکار گردانا۔ مرزا کہتے ہیں کہ نابکار کو کوئی قلمکار گردانے تو اسے خوش ہونا چاہیے ۔پھولے ہم بھی نہ سمائے لیکن یہ دیکھ کر خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ لوگ ہمیں عالمی شہرت یافتہ ادیب لکھتے ہیں ،مانتے بھی ہیں اس کی خبر نہیں۔ جب خوشی دوڑ کر پہاڑوں اور بیابانوں میں گھومنے پھرنے لگی تو ہم نے سو جتن کرکے اسے واپس بلایا اور حقیقت بیان کی۔ آپ بھی حقیقت سن لیجئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ناچیز ایک ادنی سا طالب علم ہے جس کے پاس نہ ایسی جاندار تحریریں کہ کوئی متاثر ہو، نہ دولت کی ریل پیل کہ کوئی عاشق ہو ، نہ ایسا کوئی کارنامہ کہ لوگ دور سے پہچان لیں، نہ اخلاق ، نہ اخلاص اور نہ بات کرنے کا سلیقہ کہ فراز کی طرح دعویٰ کروں کہ ؎
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
ہم سے ملاقات کرنے والے دوبارہ ہم سے ملنے کی گستاخی نہیں کرتے کہ وہ دھیمے لہجے اور خراب تلفظ میں ہماری بکواس سن کر اپنی قیمتی ساعتیں ہرگز خراب نہیں کرنا چاہتے۔ہمیں تو مہمان نوازی کا طریقہ بھی نہیں آتا کہ لوگ پیٹ بھر کر کھائیں اور ہمارے گن گائیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے پاس وہ خیالات بھی نہیں جو لائق سماعت ہوں ، نہ ہماری صحت اور جسامت ایسی کہ لوگ خوف کھائے اور دھیان سے ہماری بات سنے، نہ کوئی گن کہ میدان فتح کرلیں، غرض ہمیں کوئی ایسا ہنر نہیں آتا جو کسی ادبی یا نیم ادبی محفل میں تعارف اور تعریفوں کے لائق ہو۔ ہم منہ میں زبان تو رکھتے ہیں لیکن غیبت کے سوا ہمیں کوئی بات کرنی نہیں آتی۔ ہاں کبھی کبھار ؎
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
آج جب اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع ملا تو غنیمت ہے کہ سچ بولیں تاکہ کچھ گناہ کم ہوں حالانکہ جھوٹوں کی حیثیت ،رتبہ اور مرتبہ دیکھ کر سچ بولنے میں اگرچہ ہمیں کوفت ہوتی ہے لیکن یہ اعتراف کرنے میں ہمیں کسی پیچیدگی کا سامنا نہیں کہ ہم عالمی شہرت یافتہ ہرگز نہیں اور نہ ہم خود شناس ہیں کہ میر کی طرح یہ دعویٰ کرسکیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
عالم تو دور ہمیں اپنی گلی کا دوکاندار تک نہیں جانتا اور سو قسمیں کھانے کے بعد بھی وہ ہماری کسی بات پر بھروسہ نہیں کرتا۔ہم جو کچھ کہتے ہیں اس پر لوگ شبہ ہی نہیں بلکہ یقین کرلیتے ہیں کہ جھوٹ ہوگا۔صاحبو جھوٹ اگرچہ میٹھا ہوتا ہے لیکن کبھی مستند نہیں ہوتا۔ حال ہی میں پیش آیا ایک تازہ واقعہ سن لیجیے ۔پچھلے دنوں گھر میں ہلدی سے لے کر چائے تک اور چینی سے لے کر نمک تک کے تمام برتن خالی ہوئے اور بیوی کے سر میں ایسے سر ملانے لگے کہ ؎
میرے ارد گررد وہ شور تھا، مری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکا نہ وہ سن سکی، مری بات بیچ میں رہ گئی
اس شور کو کم کرنے کے لئے ہم حضرت دوکاندار کے پاس پہنچے۔اس نے آنے کا سبب دریافت کیا تو عرض کی کہ حضور مصالحہ جات کے سارے ظرف خالی ہیں اور حالی فرما گئے ہیں ؎
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
ان صداؤں سے تنگ آگیا ہوں اس لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔آپ نمک سے لے کر چینی تک ، چائے سے لے کر ہلدی تک ،سونف ، مرچ اور ان تمام مصالحہ جات کے رشتہ داروں کو باندھ کر میرے حوالے کیجیے جن کی بدولت کھانے میں سواد اور مزہ پیدا ہوتا ہے تاکہ ہم شور کی سزا، بیوی کے عتاب ، اس کی ناراضگی اور طعنوں سے بچ سکیں۔فرمایا دستیاب تو ساری اشیاء ہیں لیکن ادھار کا کاربار بند ہے۔ ہم نے یقین دلایا کہ حضور چند روز میں آپ کی رقم آپ تک پہنچ جائے گی لیکن اس نے ہماری ایک نہ سنی۔ ہم عالمی شہرت رکھتے تو لوگ ہمیں ادھار بھی دیتے اور ہماری عزت بھی کرتے۔ہماری شرمندگی گواہ ہے کہ ہم عالمی شہرت یافتہ ہرگز نہیں اور نہ ہمارا فرمایا مستند ہے۔
بعض لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ؎
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
خدا جانے ان میں یہ جسارت ،ہمت اور پیسہ کہاں سے آتا ہے کہ پہلے وہ ملکوں ملکوں گھومتے ہیں، پھر جب شہرت کو پالیتے ہیں تو اپنے کم پایہ رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے میں انہیں اعتراض ہوتا ہے اور یوں وہ ان کے لئے نایاب ہوجاتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تعداد میں شدت سے اضافہ ہورہا ہے لیکن تخلیقات کا معیار تیزی سے گر رہا ہے۔عالمی شہرت یافتہ کہلانے کے چکر میں خوشامد کی سیڑھی کا استعمال عام ہوچکا ہے۔سیڑھی پر چڑھنا آسان ہے لیکن اس پر قائم رہنا مشکل ہے کہ اونچائی سے گرنے والے اٹھ نہیں پاتے۔شہرت کے آسمان پر اُڑنے سے بہتر ہے گمنام زمین پر رہا جائے۔مرزا کہتے ہیں کہ ناتجربہ کار کبوتر جب اونچا اڑنے لگتا ہے تو شکرا خوشی مناتا ہے۔کام بہتر ہو تو نام کو پر لگ جاتے ہیں اور انسان کی شہرت واقعی دور دور تک جاپہنچتی ہے۔ ہمیں واحد پریمی سے اتفاق ہے کہ ؎
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے اے واحدؔ
انہیں کے نام ہیں دنیا میں جن کے کام اچھے ہیں
���
کولگام کشمیر، موبائل نمبر؛8493981240