عالمی ذرائع اور اُمّت ِ مسلمہ

گذشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر میں مختلف ذرائع کے ذریعے جس طرح کا کردار و گفتاراسلام اور اُمّت ِ مسلمہ کے خلاف نبھایا جارہا ہے۔اُس سے یہ امر نمایاںہورہا ہے کہ غیر مسلموںکے ذہنوں میں جونک کی طرح یہ بات چپک کر رہ گئی ہے کہ اسلام بزور ِ شمشیر پھیلا ہے،جس کی مخالفت کے تحت ہی وہ اپنے اغراض و مقاصدکے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں، حالانکہ صدیاں گذرجانے کے باوجود وہ اس کی ایک بھی واضح مثال پیش نہیں کرسکےہیں۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو روئے زمین پر مسلمانوں کے سِوا اور کوئی قوم موجود ہی نہ ہوتی ۔چنانچہ جن ممالک میں سینکڑوں سال تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمانوں نے اُن ملکوںکا نام تک بدلنے کی نہ سوچی ، بھَلاوہ حکمِ الٰہی کے خلاف تلوار کے ذریعے دینِ اسلام کو کیسے پھیلا سکتے،اگر ہم اپنے ملک کی ہی بات کریں تو کیا یہاں مسلمان اقلیت میں ہوتے ؟مگر مسلمانوں کے لئے اسلام کا حکم ہے کہ دین میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشائی کرنے میں ہمہ تن مشغول رہنے والےزیادہ تر غیر مسلم عالمی ادارےاسلام اور اس کی تعلیمات کے بارےمیں بالکل کورے ہیں اور بے جا حسد اور خود پرستی کے تحت نفرت پھیلاکےدُنیا کو لڑائی جھگڑوں میں اُلجھاکر اپنے فوائد و مقاصدحاصل کررہے ہیں۔تاہم اگر غور کیا جائےتو اُن کی مسلمانوں کے تئیں ناپسندیدگی کا اظہار بھی کسی حد تک حق بجانب ہےکیونکہ دورِ حاضرکے مسلمان خود اسلامی تعلیمات کی راہ میں بُری طرح حائل ہیں۔گوکہ اُمتِ مسلمہ کو بہت سے چلینجز درپیش ہیںلیکن خود اُن کے اندرونی چیلنجززیادہ مہلک ہیں۔ہم مسلمان دنیا کے سامنے کیا پیش کررہے ہیں؟ باہمی رحم و محبت صرف تقریروں اور تحریروںکی چیزیں بن کر رہ گئی ہیںاور عملی و فکری اعتبار سے بھی ہم اپنے دین سے دُور نظر آتے ہیں۔عالمی دعوت کے علمبردار ہونے کے باوجود ہم اپنی حدود سے آگے نگاہ دوڑانے کی زحمت نہیں کرتے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ دنیا کی دیگر قومیں کس طرح ترقی کے منازل طے کرتی رہیں اور مختلف معاملات میں آگے بڑھ کر ہم سے بازی لے چکی ہیں۔ صدیوں سے یہ لوگ ہمارے ماضی کی چھان بین کررہے ہیںاور ہمارے حال و مستقبل پر غوروفکر کررہے ہیں،وہ ہماری ایک ایک چیز سے واقف ہیں اور ہم جہالت و سر کشی کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں۔دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی ہیں ،ہمیں اس کا احسا س نہیں ،وہ ہر سطح پر اور ہر میدان میں آگے بڑھ رہےہیںاور ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے آپسی تنازعات اور انتشار کے ذریعے اُن کے لئے راہیں آسان بنارہے ہیں۔دنیاوی امور میں غفلت و ناکامی کا اس سے بڑاثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ دوائوں سے لے کر دفاعی آلات تک ایک ایک چیز میں اُنہی کے محتاج ہیں جبکہ دینی امور میں ہماری بے حسی اپنی آخری حدوں کو چھُو رہی ہے۔عبادات اور چند معاملات میں روایتی نقالی اور غیر اہم چیزوں پر ساری توجہ دینے کے علاوہ کچھ بھی ظاہر و نُمایاں نہیں ہوتا۔مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے واقفیت تو ہوجاتی ہے لیکن اس کی روح اور حقیقت سے وہ کوسوں دور ہیں۔اُمت اور اسلام کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور اسلامی معیشت کا کہیں بھی بول بالا نظر نہیں آتا ،جبکہ بیشترمسلم علاقے پسماندگی میں تیسری دنیا میں شمار کئے جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ہم نے ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی، جس میں عہد کی پاسداری ،امانت داری اور قول و عمل میں یکسانیت کا بول بالا ہو،جبکہ ہماری کچھ عادتیں بالکل حُکمِ خدا وندی کی مخالفت پر مبنی ہیں۔پُرانے مذاہب بھی اِسی افراط و تفریط کے سبب زوال کا شکار ہوئے تھے کہ کبھی وحی الٰہی میں بھی اپنی خواہش کے مطابق حذف و اضافہ کیا اور کبھی احکامات پر عمل معطل کردیا ۔تاہم اب تک مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ اُن کی کتاب خدا کے فضل و کرم سے محفوظ ہے اور خوش بختی کی بات یہ ہے کہ اسلامی ارکان اوربنیادی چیزوں پر مکمل اتفاق ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانان اپنے دین کو انسانی و اخلاقی معیار سے بلند ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، اس دین سے ناواقف لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرائیں اور بذاتِ خود اسلام کے اصول و ضوابط پر چلنے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ جب تک مسلمان قرآن و سنت کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اور اپنی جہالت و فکری انتشار کو ختم نہیں کرتے، تب تک اُن سے زندہ رہنے کا حق تک چھین لینے کا خطرہ لاحق ہے۔