شبیر احمد بٹ
نہ صرف مُلکی بلکہ عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ پر کئی سالوں سے بحث و مباحثے ہورہے ہیں یہاں تک کہ ایک طرف گلوبل وارمنگ کے اثرات بھی جنگی صورت حال کاسبب بن جاتی ہے اور جنگیں خود ہی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ آج سے تقریباً آٹھ سال قبل ایک سمینار میں گلوبل وارمنگ کے مضر اثرات و مشکلات کی آگاہی دی جارہی تھی ۔ایک ٹیچر اپنی نوجوان پود کو سمجھا رہا تھا کہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت سے مراد کرۂ ارض کی سطح پر تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے۔ ماحولیاتی مطالعات کی روشنی میں برابر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ زمین پر درجہ حرارت لگاتار بڑھ رہا ہے۔ اگر ہم بیدار نہیں ہوئے تو آنے والے وقت میں موسمی تبدیلیاں، زمینی، فضائی اور آبی آلودگی۔ اوزون کی پرت میں ہونے والے شگاف، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا مسئلہ، جنگلات کی کٹائی کے منفی اَثرات، جنگلی حیاتیات اور سمندری حیاتیات کی بتدریج تباہی، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا، برفانی طوفان، موسلادھار بارشیں، تباہ کن سیلاب ، خشک سالی، غذائی قلّت، بھوک، قحط سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا لازمی بن جائے گا ۔گلوبل وارمنگ سے پوری دنیا کے حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جہاں بارش ہو رہی ہوتی ہے وہاں خشکی آسکتی ہے اور جہاں خشکی ہے وہاں بارشیں ہونا شروع ہوسکتے ہیں ۔ اس کے بعد وضاحت کے ساتھ اس سنگین مسئلے کے وجوہات اور اس کے اثرات کو کم کرنے کی تدابیر اور تجاویز پر باتیں ہوئیں۔سمینار سے باہر آتے ہی جب ہم چائے پی رہے تھے تو ایک بندے نے کہا،’’ارے ان لوگوں کو اللہ پر بھروسہ نہیں ہے ۔یہ پچھلے سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہوگا ویسا ہوگا ۔‘‘
دوسرا بندہ اس کی تائید میں کہنے لگا بالکل ٹھیک کہا ،’’ موسم صدیوں سے ایسے ہی چلے آرہے ہیں۔ بھوک ، قحط اور خشک سالی سے اس کا کیا لینا دینا ۔‘‘
غرض سمینار میں شامل پڑھے لکھے لوگوں نے بھی جب طرح طرح سے اس حساس معاملے کو مذاق بنانے کی کوشش کی تو میں سمجھ گیا کہ عام لوگ کب ان باتوں کو سمجھیںگے ۔
اب کہا جارہا ہے کہ 1957 سے پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وادی میں درجہ حرارت 37.4 تک پہنچ گیا ۔ اب کہا جارہا ہے کہ جموں سے زیادہ گرمی وادی میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔۔۔، اب آئے روز سیلابی صورتحال پیدا ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔۔۔ آنے والے برسوں میں کیا ہوگا سوچ کر ہی خوف طاری ہوتا ہے ۔ ایک طرف دنیا کے حکمران خصوصاً خود کو امن و شانتی کے علمبردار کہنے والے جنگ و جدل کرکے ، اپنے آپ کو طاقت ور ثابت کرنے کے لئے اس گلوبل وارمنگ کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں اور دوسری جانب ہم جیسے لوگ نہانے کی تصویریں اپلوڈ کرکے ، گرمائی چھٹیوں اور اسکولی وقت پر تنقید و تعریف کرکے خود کو پالیسی میکر اور ڈاکٹر اے پی جی ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے قوم کے غیر مستند اور خود کو صحافت کے شعبے میں شمار کرنے والے بھی بے شمار ہیں جو خرگوش اور لومڑی کی کہانیوں اور اسی رٹ میں مہینوں گزارتے ہیں کہ گرمائی چھٹیاں ہونی چاہیے یا نہیں ۔مارننگ ٹائم صحیح ہے یا نہیں ۔ سوشل میڈیا نے رہی صحیح کسر بھی نکال دی ہے اور لوگ اب اس گلوبل وارمنگ کے سبب آنے والی آفات کو بھی لطف اندوزی اور لائک شئیر کے لئے اپلوڈ کرتے ہیں ۔ دریائوں اور ندی نالوں پر غیر قانونی تجاوزات کرکے ، جنگلات کو شہروں اور شاہراوں میں تبدیل کرکے اور پالیتھین و دیگر ماحولیاتی آلودگی کو ہر گلی اور نکڑ پر پھینک کے ہم نے قدرت کے ساتھ ایک جنگ چھیڑ دی ہیں جس کا پھل ہمیں آئے روز بحر و بر میں مل رہا ہے ۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ ہمارے آفات میں بھی انقلاب آرہے ہیں ۔فضائی آلودگی کا اثر ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے پر بھی پڑتا ہے ۔ سرسبز و شاداب اور لہلہاتی وادیوں کو جنگی دوڑمیں بنجر بناکے عالمی رہنمائوں کی گلوبل وارمنگ کو روکنے کی کوششیں کہاں اور کیوں کر بار آور ثابت ہوں گی ۔جب ہم نے اپنی دھرتی کو ہی اپنے ناپاک ارادوں اور مفاد کی خاطر ناپاک کیا تو پھر ماں کے نام پیڑ لگائے یا آنٹی کے نام ،سب بے سود!
خود غرضی میں ہم نے فطرت کو جلا دیا
ہوا، زمین اور پانی سب کو زہر بنا دیا
رابطہ۔7889894120
[email protected]>