روٹی،کپڑا اور مکان جہاں انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ،وہیں تعلیم وتربیت ،تہذیب وشائستگی اور سکون قلب ایسی عظیم نعمتیں ہیں جو کسی مارکیٹ سے نہیں خریدی جاسکتی ہیں۔انسانی قدریں کیا ہوتی ہیں ؟یہ سوال جتنا اہم ہے اتنا ہی اس سوال کی صرا حت اوروضاحت بھی اہم ہے۔جب ہم انسانی قدروں کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تمام اخلاقی وروحانی خصائل ہیں جو ہمیں معاشرے میں ایک اچھا انسان بناتی ہیں ۔بالفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں خالق کائنات نے تمام چیزیں متضاد صورت میں رکھی ہیں ،مثلاّ دن ،رات،زمین ،آسمان،آگ ، پانی،پہاڑ،میدان،آبادی،ویرانی یہ تمام متضاد چیزیں ہمیں ٹھوس شکل میں نظر آتی ہیں ۔اسی طرح دنیائے اخلاق میںمتضاد چیزوں کا تعلق ہمارے ظاہری وباطنی اعمال سے ہے :مثلاّحرام وحلال،سچ اورجھوٹ،اچھا اور برا،علم وجہل،جائز وناجائز،ظالم ومظلوم،باحیاو بے حیا ،امن وجنگ،نیک وبد،خوشحال وکنگال غرض یہ کہ اسی طرح کی بہت سی اور بھی متضاد ومتحارب امور ہیں جو ہماری زندگی کو ہماری مرضی کے مطابق پرسکون ،خوشحال اور باوقار بناتی ہیں لیکن اگر ان قدروں سے منہ پھیر لیا رو پھر ہمیں تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچاتی ہیں ۔گویا معلوم یہ ہوا کہ رحم و انصاف،صداقت پسندی،خدا شناسی اور خود شناسی،رواداری میل ملاپ،بھائی چارہ،قانون قدرت کے مطابق زندگی بسر کرنا،تمام مخلوقات خداوندی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ تمام باتیں انسانی قدریں کہلاتی ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکیسویں صدی سائنسی وتکنیکی ترقی کی صدی ہے ۔نئی نئی ایجادات نے کسی حد تک ایک طرح کا فتنہ پرور ماحول پیدا کردیا ہے ۔امن وسکون کی راہیں مسدود ہوکے رہ گئی ہیں ۔تمام آسائشوں کے باوجود آج کا انسان پریشان ہے ۔بے چینی اور بد امنی آج کے آدمی کا مقدر بن کے رہ گیا ہے ۔فرقہ پرستی،علاقائیت،ذات پات،رنگ و نسل،امیری وغریبی،خود غرضی،شہوت پرستی،سیاسی بازی گری اور خود نمائی وخود پسندی کا زہر معاشرے میں بری طرح سرایت کرچکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اپنے تمام مادی ، معاشی اور سائنسی و تکنیکی وسائل کے باوجود ذہنی وقلبی سکون کے لیے ترس رہا ہے ۔
خالق کائنات کا نظام عالم منظم طریقے پر چل رہا ہے۔مظاہر فطرت پہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ تمام مظاہر اپنے اپنے طور پر اپنا کام کررہے ہیں ۔حیوانات،نباتات اور جمادات کے علاوہ سمندروں میں رہنے والی مخلوق اپنے مطالبات کے لیے بھوک ہڑتال نہیں کرتے ۔یہ آدمی ہی ہے جو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود خون ریزی،دہشت گردی اور بدامنی کا ماحول قائم کئے ہوئے ہے۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آج کے آدمی نے ان تمام متذکرہ انسانی قدروں کا جنازہ نکال دیا ہے جو قدریں انسانی زندگی کی بہتری اور تزئین کاری میں لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔آج دنیا کے بیشتر ممالک میں امن وسکون نظر نہیں آتا ۔برما کے مسلمانوں کی نسل کشی انسانی قدروں کے فقدان کا نتیجہ ہے۔اسی طرح فلسطین وشام اور دوسرے ممالک بھی امن وسکون کے لیے ترس رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں بھی جو حال ِ بدہے وہ ہم سب پر عیاں ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں نفرت وکدورت اور ظلم واستبداد اور فحاشی کا سیلاب امڈ پڑا ہے۔اس بھیانک صورت حال کے لیے ہم سب تمام کے تمام ذمے دار ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں امن وسلامتی کا ماحول کس طرح قائم کیا جائے ؟اس سلسلے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب تک ہم سب اُن صحت مندانسانی قدروں کو نہ اپنایاجائے جن کے باعث آدمی انسان بنتا ہے تب تک پوری دنیا میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ ہم کس طرح ایک خوشحال اور پر سکون زندگی گزارنے کے لائق بن سکتے ہیں ؟ اس کے لیے ہمارے سیاسی رہنماوں ،دانشور طبقے اور مصلحین قوم وملت کو آگے آنا ہوگا۔تعلیمی اداروں میں مدرسین کو چاہیے کہ وہ طلبہ میں اخلاقی و روحانی قدریں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ان میں وہ اوصافِ جمیلہ پیدا کریں جن کے سبب وہ بہترین شہری بن سکیں کیونکہ کسی ملک کا بہترین سرمایہ اس کے تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے ہیں ۔عوامی سطح پہ ایسی اصلاحی تنظیمیں قائم کی جانی چاہیں جو معاشرے میں موجود تمام برائیوں کے خلاف سینہ سپر ہوں جن کے باعث ہمارے بیچ امن وسکون قائم نہیں ہے ۔سیاسی رہنماوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ انسانی قدروں کی بحالی کے لئے عملی کام کریں بلکہ ایسے قوانین بنوائیں جو امن وسکون کے کلی طورضامن ہوں ۔اسی طرح ہر ملک کی عدلیہ کو چاہیے کہ وہ امن و سلامتی،رواداری وبھائی چارہ کے نفاذ کے لیے قوانین وقواعد کا نفاذ ممکن العمل بنائیں ۔ سچ یہ ہے کہ بااثرحکومتیں عالمی امن کو بحال رکھنے یا قائم کرنے میں کلیدی رول ادا کرسکتی ہیں ۔ملکوں میں پھیلے جرائم کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو حکومت کی جانب سے اس طرح کی سزا نہیں ملتی جس طرح ان کو سزا ملنی چاہیے۔اخلاق وکردار اور بہترین چال چلن کی ہر شخص کو ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہر فرد اس کو اپنی ذمہ داری سمجھے گا ۔ ادیبوں ،شاعروں ،فنکاروں اور مفکروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علم و ادب کے اُجالوں کے ذریعے انسانی قدروں کو فروغ دیں ۔وہ ایسی علمی وادبی کاوشیں کریں جو اصلاح معاشرہ اور انسانی اوصاف سے تعلق رکھتا ہو کیونکہ دنیائے علم و ادب کا قوموں کے امن وخوشحالی میں بہت بڑا رول ہوتا ہے ۔ایک صحت مند معاشرہ اسی صورت میں وجود میں آتا ہے جب اہل سیاست اور اہل علم لوگ اپنا اپنا رول مستحسن انداز میں پوری دیانت وامانت داری کے ساتھ نبھانے لگتے ہیں ۔تمام مذہبی رہنماوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سوچ اور فکر کادائرہ وسیع رکھیں ۔ زیادہ سے زیادہ انسانی اوصاف ، رواداری اور بھائی چارے کی بات کریں، نفرت ، تعصب اور جذباتی طرز تکلم کو ترک کریں ۔بلا لحاظ مذہب وملت عالم انسانیت کے فروغ پر گفتگوئیں کریں ۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب فرمایا ع
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
بہر حال یہ بات حق بجانب ہے کہ انسانی قدروں کے ساتھ جو معاشرہ جیتا ہے وہ خوشحال زندگی گزارتا ہے ۔آج کا معاشرہ اگر اخلاقی طور بانجھ اور مفلوج ہے تو اس کی بنیادی وجہ انسانی قدروں کی شکست وریخت ہے۔زندگی ایک مختصر اور غیر یقینی سفر ہے ۔ہم عالم میں بسنے والے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق زندگی اور معاشرے میں امن وسلامتی کا ماحول قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں ۔ورنہ ہم تو ایک طرح کے جنگل راج میں جی رہے ہیں ۔میں اپنی بات علامہ اقبال کے ان اشعار پہ ختم کرتا ہو ں ؎
کھول آنکھ زمیں دیکھ ،فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش ، فضائیں
تھیں پیش نظر کل تک یہ فرشتوں کی ادائیں
آیئنہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
رابطہ :شعبۂ اردو ڈاکٹر غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری