چشم فلک نے یہ کیسا منظر دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ ٔپاکستان کہلائے جانے والے وطن ِعزیز میں ایک نہتی ، بیبس اور معصوم عورت کو ، تین بچوں سمیت دن دھاڑے اغواء کرلیتے ہیں۔ ستم یہ کہ محض اغواء نہیں کرتے ، بلکہ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں ،بلکہ اہل خانہ کو لب سیئے رکھنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر خطرناک نتائج کی دھمکی دی جاتی ہے۔30 مارچ 2003کو اغواء ہونے والی عافیہ صدیقی کے لواحقین ، 5سال تک ناواقفیت کے کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔جب کوئی اپنا خالق حقیقی سے جا ملے ، تو کسی نہ کسی صورت دل بے قرار کو قرار آہی جاتا ہے مگر کسی عزیز کے لاپتہ ہونے کا غم ، ناسور بن کر ڈستا ہی رہتا ہے۔ یونہی عصمت صدیقی بھی عافیہ کے غم میں گھلتی جارہی تھی کہ اللہ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے اور 6؍جولائی 2008ء کو صحافی ایوان ریڈلی ، اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کرتی ہیں کہ ’’ کابل کے قریب بگرام ائر بیس پر ، ایک پاکستانی خاتون بغیر کسی جرم کے ، چار سال سے مردوں کے جیل میں قید ہے۔ قیدی نمبر 650؍کی بیرک سے بلند ہوتی صدائیں ، بگرام جیل کو ہلا ڈالتی ہیں۔ اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اذیت و تشدد کی وجہ سے وہ مسلمان عورت ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں ‘‘….آہ …!!
ہم تو ماؤں بہنوں کی عزت کے محافظ قوم تھے۔ اُن کی ایک پکار پر لبیک کہہ کر ، اُن کی عصمت و عفت کی حفاظت کرنا ہمارا شیوہ رہا ہے۔ پھر یہ دختر فروشی کی کیسی رسم چل پڑی ہے ؟ ہماری غیرت نے کیسے گوارا کر لیا کہ غیروں کی قید میں ہماری بہن کی حرمت روز پامال ہوتی رہے اور ہم کان منہ لپیٹے سوئے پڑے رہے ؟ اے میری بہنا !ہم شرمندہ ہیں …ہمارے سر جھکے ہوئے ہیں ،ندامت سے ، شرمندگی سے …!!
آگے چلتے ہیں، ایوان ریڈلی کے انکشاف کے بعد بھی امریکی حکام لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کو تحویل میں لینے سے مسلسل انکاری ہوتے ہیں مگر ریڈلی کے صحافیانہ دلائل کے آگے بیبس ہوجاتے ہیں، چنانچہ ایف بی آئی حکام 5؍اگست 2008ء کو عافیہ کو ، نیویارک کی عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔ جہاں اپنے ہی قانون کو پیروں تلے روندتے ہوئے عافیہ کی ناشائستہ انداز میں تلاشی لی جاتی ہے۔ عافیہ پر بگرام جیل میں ، امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس بے بنیاد الزام کے ٹھوس دلائل اور شواہد نہ ہونے کے باوجود ، 4؍اپریل 2010کو ، امریکی عدالت انصاف ، ناانصافی کی بدترین تاریخ رقم کرتے ہوئے ، 86؍قید کی سزا سنادیتی ہے۔اس کے بعد سے آج تک ، ناکردہ گناہوں کے پاداش میں ، امریکی ٹارچر سیلوں میں ، ہماری بہن پر ، بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے۔امریکی عدالت انصاف کا یہ ظالمانہ فیصلہ جہاں ایک طرف حقوق نسواں ، انصاف و مساوات کے علمبرداروں کے دہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے ، تو دوسری طرف یہ مسلم اُمہ و اہل پاکستان کی غیرت و حمیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ عافیہ تو ہر ہر قدم پر عزیمت و استقامت کا مظاہرہ کرکے ، ربِ کائنات کے سامنے سرخرو ٹھہری۔ یقیناً رب مہربان کی بہترین میزبانی عافیہ کی منتظر ہیں مگر بروز حشر ہمارا شمار کن میں ہوگا ؟ بحیثیت قوم ہم عافیہ کے مجرم ہیں۔حکمراں طبقے کی اپنی صاحبزادی ، غیر کی قید میں یوں ظلم سہہ رہی ہوتی ، تو کیا وہ یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے .؟ہرگز نہیں …بلکہ رات ایک کرکے ، تمام اختیارات و وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ، اپنی لخت جگر کو آزاد کرواکر ہی دم لیتے مگر عافیہ کے بارے میں ایسی فعالیت اور حساسیت کیوں مفقود ہے؟ کیوں حکمران طبقہ جان بوجھ کر انجان و بیگانہ نظر آتے ہیں ؟ کیا عافیہ اس قوم کی مایہ ناز و قابل فخر بیٹی نہیں ؟اے لیڈران وطن ..!! کچھ تو غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیجئے۔ کچھ تو اپنے منصب کا حق ادا کیجئے۔ کیوں اتنی بے حسی ہے ؟ہم اپنے حصے کا کام کرتے رہیں گے۔ ہم دہائی دیتے رہیں گے ، تاوقتیکہ کوئی ابن قاسم اٹھے ، اور اپنی بہن کو کفر کے زندانوں سے نکال لائے۔ ہم پراُمید ہیں۔ رب کعبہ کی قسم ظلم کی یہ سیاہ رات ختم ہوکر رہے گی۔ ایک نہ ایک دن روشن صبح ضرورطلوع ہوگی ؎
داستاں تیری گھر گھر سنائیں گے ہم
قوم سوئی ہے اس کو جگائیں گے ہم
دیکھنا ایک دن بدلے گا جغرافیہ …
استقامت وشجاعت کو تیری سلام عافیہ ….!!